پشاور -- پن چکی، جسے مقامی زبان میں "راندہ" کہا جاتا ہے، گندم، مکئی، باجرہ، جوار اور دیگر اناجوں کو آٹا بنانے کے لیے پیسنے کا ایک قدیم طریقہ ہے۔
راندہ کئی صدیوں سے موجود ہیں اور پسائی کی ملوں میں جدید ٹیکنالوجی آنے کے باوجود، ابھی بھی خیبرپختونخوا (کے پی) اور پاکستان کے دیگر حصوں میں استعمال کی جاتی ہیں۔
پشاور میں وارسک روڈ پر ایک راندہ کو چلانے والے، 50 سالہ حضرت علی نے کہا کہ جو لوگ راندہ سے پسے ہوئے آٹے کے معیار سے واقف ہیں وہ جدید ملوں میں پسے ہوئے آٹے پر اسے ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہی وجہ ہے کہ راندہ ابھی تک باقی ہے؛ بصورتِ دیگر یہ ٹیکنالوجی کے آنے کی وجہ سے متروک ہو چکی ہوتی۔"
علی کا خاندان تقریباً ایک صدی سے روایتی طریقے سے آٹا پیستا چلا آ رہا ہے۔ اسے اپنے والد کا کاروبار ورثے میں ملا تھا۔
راندہ کو بہتے ہوئے پانی سے چلایا جاتا ہے جو ایک دریا یا ندی سے لایا جاتا ہے۔ پانی کے بہاؤ کی قوت ایک ٹربائن کے پنکھوں کو چلاتی ہے۔ یہ ایک دھرے کو گھماتی ہے جو پیسنے والے پتھر کو چلاتا ہے۔
پانی کے بہاؤ کو ایک ٹکڑے والے گیٹ سے قابو کیا جاتا ہے جو پیسنے والے پتھروں کی دیکھ بھال اور رفتار پر قابو پانے کے قابل بناتا ہے۔
علی نے کہا کہ گندم اور دیگر اناج کو پیسنے کا یہ تاریخی طریقہ خطے کی زرخیز ثقافت کی ایک علامت تصور کیا جاتا ہے۔
اگرچہ صدیوں سے مشینیں تبدیل نہیں ہوئی ہیں، کچھ چیزیں بدل چکی ہیں۔
علی نے کہا کہ تمام پن چکیاں کے پی محکمۂ آب پاشی کی ملکیت ہیں، جو انہیں سالانہ بنیادوں پر کامیاب بولی دہندگان کو ٹھیکے پر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا، "جب میں نے کاروبار شروع کیا تھا، ہماری پن چکی کا سالانہ ٹھیکہ 12،000 روپے (120 ڈالر) تھا۔ اس سال میں نے ٹھیکے کے لیے 150،000 (1،500 ڈالر) بولی لگائی تھی۔"
مجهے ہاته سے چلنے والی چکی چاہئے کہاں سے ملے گی؟
جوابتبصرے 1