دہشتگردی

پاراچنار کے شہری عسکریت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے

اشفاق یوسف زئی

پاکستانی سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن یکم جولائی کو لاہور میں پاراچنار میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان نے 23 جون کو پاراچنار کے مصروف بازار میں جڑواں دھماکوں کے بعد قبائلی پٹی میں سیکورٹی کو بڑھا دیا ہے۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

پاکستانی سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن یکم جولائی کو لاہور میں پاراچنار میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان نے 23 جون کو پاراچنار کے مصروف بازار میں جڑواں دھماکوں کے بعد قبائلی پٹی میں سیکورٹی کو بڑھا دیا ہے۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

پشاور -- حالیہ ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں سے سنبھلنے والے پارا چنار، کرم ایجنسی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ان کے حوصلے ٹوٹے نہیں ہیں اور انہوں نے امن کے حصول کے لیے کام جاری رکھنے کا عہد کیا۔

مقامی خبروں کے مطابق، یکے بعد دیگرے ہونے والے دو بم دھماکوں نے 23 جون کو مصروف توڑی بازار کو نشانہ بنایا جہاں گاہک عید الفطر کی خریداری کر رہے تھے۔ یہ حملہ جس کی ذمہ داری لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) نے قبول کی، میںکم از کم 72 افراد ہلاک ہوئے۔

اس سے پہلے، طالبان کے ایک اور کار بم نے 31 مارچ کو شہر کے ایک اور بازار کو نشانہ بنایا اور کم از کم 22 افراد کو ہلاک کر دیا۔ دہشت گردوں نے 21 جنوری کو سبزی منڈی کو نشانہ بنایا جس میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہوئے۔

پاراچنار کے شہری، 30 سالہ شوکت حسین نے پاکستان فارورڈ کو اس خوفناک صورت حال کے بارے میں بنایا جس کا مشاہدہ انہوں نے حالیہ حملے کے بعد کیا تھا۔

23 جون کو پاراچنار کے ایک بازار میں جڑواں دھماکوں کے بعد ایمبولینس متاثرین کو لے جا رہی ہے۔ کم از کم 72 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ]ایس ٹی آر/ اے ایف پی[

23 جون کو پاراچنار کے ایک بازار میں جڑواں دھماکوں کے بعد ایمبولینس متاثرین کو لے جا رہی ہے۔ کم از کم 72 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ]ایس ٹی آر/ اے ایف پی[

انہوں نے کہا کہ "میں نے خون سے لتھڑے اور کٹے پھٹے جسم دیکھے جو ہر جگہ بکھرے ہوئے تھے۔ جب میں پہلے دھماکے کی جگہ کی طرف دوڑا تو چند منٹوں میں ہی ایک دوسرے زبردست دھماکے نے سارے بازار کو ہلا کر رکھ دیا"۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) پشاور میں پٹیوں میں بندھے ہوئے پاوں کے ساتھ بستر پر لیٹے، شوکت نے کہا کہ دہشت گرد کبھی بھی پارا چنار میں قدم نہیں جما سکیں گے، جہاں شیعہ برادری کی اکثریت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاراچنار میں تمام مکتبہ ہائے فکر کے نمائںدے ان لوگوں کے خلاف متحد کھڑے ہیں جو فرقہ ورانہ تقسیم کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔

شوکت جو کہ اسکول میں پڑھاتے ہیں اور اس دن اپنی والدہ کے لیے دوائی خریدنے کے لیے بازار میں موجود تھے، نے اس حملے کو بزدلی کا کام قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ "دہشت گرد اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ عوام کو ڈرا سکتے ہیں مگر دہشت گردی کے خلاف مزاحمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتہاپسند آبادی کو اطاعت گزاری کے لیے مجبور نہیں کر سکتے۔

ایک غیر متزلزل اتحاد

شوکت کے بھائی شاکر حسین نے کہا کہ پارا چنار کے شہریوں نے ماضی میں بھی عسکریت پسندی کو مسترد کیا ہے اور وہ اسے دوبارہ مسترد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "آبادی میں غیر متزلزل اتحاد ایک ٹھوس دفاع ہے جو دہشت گردی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دے گا"۔

انہوں نے کہا کہ عوام چوکس ہیں اور وہ بے گناہوں کے خون کو بہانے کے لیے کی جانے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے تیار ہیں۔

توڑی بازار میں ہونے والے دھماکے کے بعد، شہریوں نے آٹھ دن تک دھماکے کی جگہ کے قریب دھرنا دیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا پیغام دہشت گردوں تک پہنچایا جا سکے۔

مظاہرین کے جواب میں، پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپر کرم ایجنسی کے ہیڈکواٹرز کا 30 جون کو دورہ کیا اور پاراچنار کے لیے اضافی حفاظتی انتظامات کا اعلان کیا جس میںسیف سٹی پراجیکٹ کے منصوبے کا آغاز بھی شامل ہے۔

فرقہ واریت کو مسترد کرنا

پاراچنار کے ایک شہری رضوان علی جو پشاور یونیورسٹی کے طالبِ علم ہیں نے کہا کہ پاراچنار میں شیعہ اور سنی مسلمانوں میں مکمل اتحاد ہے اور دہشت گرد اسے توڑ نہیں سکتے ہیں۔

انہوں نے ہسپتال کے ذرائع کے حوالے سے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "حملوں میں زخمی ہونے والے تقریبا 40 شیعہ افراد کا علاج پشاور میں سُنی طبی کارکنوں نے کیا۔ 21 مریضوں کو لگایا جانے والا خان سُنیوں نے دیا جو کہ اتحاد کا واضح مظاہرہ ہے"۔

ایل آر ایچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ پشاور کے شہریوں نے نہ صرف خون کا عطیہ دیا بلکہ انہوں نے ہسپتال میں داخل متاثرین کو گھر کا پکا ہوا کھانا بھی فراہم کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ ایک عظیم جذبہ ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقامی شہریوں نے پاراچنار کے مریضوں اور ان کے اہلِ خاندان کو عید الفطر پر عطیات اور تحائف دیے۔

پاراچنار کے ایک مقامی شیعہ شہری رسول خان جو تیس سالوں سے پشاور میں رہائش پذیر ہیں نے کہا کہ ان کے بہت سے سُنی دوست ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم عید اور دوسری تقریبات پر مبارکبادوں اور خوراک کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ہم ایک ہی بازار میں کام کرتے ہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کچھ عناصر جن کے ذاتی مفادات ہیں وہ سُنی آبادی کے ساتھ ہمارے تعلقات کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر ایسا کبھی نہیں ہو گا"۔

دہشت گردی کے خلاف مزاحمت

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار خادم حسین نے پاراچنار کے شہریوں کی ان کی بہادری اور دہشت گردوں کے خلاف سخت مزاحمت پر تعریف کی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ماضی میں، شیعہ آبادی نے دہشت گردوں کے داخلے کے روک دیا تھا جو دہشت گردی اور خوف پھیلانا چاہتے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "نہ صرف شیعہ بلکہ سُنی بھی عسکریت پسندوں سے تنگ ہیں اور ان کا ہمشیہ کے لیے خاتمہ کرنے کے لیے ایک مشترکہ محاذ قائم کرنا چاہتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ حملوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے اور امن کے لیے کام کرنے کی قومی خواہش متاثر نہیں ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام اب دہشت گردوں کو للکارنے سے ڈرتے نہیں ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما، میاں افتخار حسین جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے 4 جولائی کو پاراچنار کا دورہ کیا تاکہ بم دھماکوں کے متاثرین اور ان کے اہلِ خاندان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ شہریوں کی بہادری سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ بہت اچھی نشانی ہے کہ لوگ دہشت گردوں سے ڈرتے نہیں ہیں اور وہ دیرپا امن کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "دہشت گرد کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت پورے پیمانے پر ایکشن کا آغاز کرے اور عوام کو ذہنی سکون مہیا کرے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500