صحت

مانع حمل طریقوں کا استعمال 50 فیصد تک بڑھا کر پاکستان آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے پرعزم

پاکستان فارورڈ

آبادی کے عالمی دن کے موقع پر 11 جولائی کو پاکستانی رضاکاروں، شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور سرکاری عہدیداران نے ریلی میں شرکت کی۔ 1998 کے بعد ہونے والی پاکستان کی پہلی مردم شماری میں آبادی 20 کروڑ خیال کی جارہی ہے جو 1998 میں 13.5 کروڑ تھی۔ (عارف حسین/اے ایف پی)

آبادی کے عالمی دن کے موقع پر 11 جولائی کو پاکستانی رضاکاروں، شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے کارکنان اور سرکاری عہدیداران نے ریلی میں شرکت کی۔ 1998 کے بعد ہونے والی پاکستان کی پہلی مردم شماری میں آبادی 20 کروڑ خیال کی جارہی ہے جو 1998 میں 13.5 کروڑ تھی۔ (عارف حسین/اے ایف پی)

اسلام آباد -- وزیرِصحت سائرہ افضل تارڑ نے بتایا کہ پاکستان میں آبادی میں سنگین اضافے پر قابو پانے کے لیے دافع حمل کے استعمال کو اگلے تین سالوں تک کم از کم 50 فیصد تک بڑھانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔

مشاہدین نے تنبیہہ کی ہے کہ ملکی آبادی میں اضافہ معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہے جس کی وجہ ترقی پذیر ملک میں اہم وسائل کا استعمال ہے، جہاں نوکریاں کم اور تقریباً 6 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

بروز منگل (11 جولائی) کو اسلام آباد میں ہونے والی ایک تقریب میں آبادی کے عالمی دن کے موقع پر سائرہ افضل تارڑ نے شرکا کو بتایا کہ دافع حمل کے استعمال کی موجودہ شرح یا خواتین اور جنسی رفیق میں دافع حمل کے استعمال کی شرح قریباً 35 فیصد ہے۔

وزارتی بیان کے مطابق سائرہ افضل تارڑ نے مزید کہا کہ "حکومت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ تسلسل، موسمیاتی تبدیلیوں اور خواتین کی خودمختاری کے مسائل کا تعلق آبادی کے رجحانات سے ہے اور ان پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "بہتر طریقوں کے مشترکہ استعمال، مؤثر مشاورت اور طویل مدتی طریقوں کے استعمال سے پاکستان کو فوائد حاصل ہوں گے۔"

آبادی میں اضافہ

عالمی بینک اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان جنوبی ایشیا میں تقریباً تین بچے فی خاتون کے ساتھ سب سے زیادہ شرحِ پیدائش کا حامل ہے۔

ملک میں جنسی تعلیم کی کمی ہے اور ماہرین طویل عرصہ سے زیادہ آگاہی، مانع حمل طریقوں تک رسائی اور اپنے تولیدی انتخابات خود کرنے کے لیے عورتوں کو عطائے اختیار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق، مانع حمل کے استعمال کو 50 فیصد تک بڑھانے سے یہ ہمسایہ بھارت سے نیچے آجائے گا، جس کی شرح 53.5 فیصد ہے۔

پاکستانی اس وقت تقریباً دو دہائیوں میں اپنی پہلی مردم شماری کے نتائج کا منتظر ہے ، لیکن تارڑ نے کہا کہ 2017 تک آبادی 1989 کے 110 ملین کے مقابلہ میں بڑھ کر 190 ملین تک پہنچ گئی ہے۔

مردم نگاروں کا کہنا ہے کہ متوقع طور پر مردم شماری ظاہر کرے گی کہ اضافہ زیادہ ہی رہا ہے۔

فیملی پلاننگ کا فروغ

پاکستان ویلیج ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والی سوشل موبلائزر نوین بی بی نے کہا کہ فیملی پلاننگ ترقی کی کنجی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں [اپنی] آبادی کے پھیلاؤ کو قابو میں کرنے کے طریقوں اور ذرائع سے متعلق عوامی آگاہی میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔“

انہوں نے کہا، ”فیملی پلاننگ کا مطلب بچوں کی پیدائش کو روکنا نہی، بلکہ ہمیں آبادی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ زچّہ و بچّہ کی صحت کے لیے بھی پیدائش میں وقفہ پر زور دینے کی ضرورت ہے۔“

ضلع پشاور کے سربراہ خطیب قاری روح اللہ مدنی بھی آبادی پر قابو پانے کے اقدامات کے مخلص حامی ہیں، انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ، صحت مند بچوں کو یقینی بنانے کے لیے خاندان چھوٹے ہونے چاہیئں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اسلام کو پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا مذہب لوگوں کو تعلیم دینے پر زور دیتا ہے تاکہ وہ مذہب اور اس امر کو سکیھ سکیں کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی کیسے گزاری جائے۔“

مدنی نے کہا، علمائے دین لوگوں کو بھوک اور بے خانمی کے خاتمہ کے لیے آبادی پر قابو پانے کی ضرورت سے متعلق آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”اس مقصد کے لیے ہم آبادی میں اضافہ کو کم کرنے کے لیے اپنی حکومت اور سول سوسائٹی کی تنظیموں [کی کاوشوں] کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا، ”امتناعِ حمل چھوٹے اور خوشحال خاندان ہونے کا بہترین طریقہ ہیں۔“

کے پی کی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر شبینہ رضا نے کہا کہ حکومتِ خیبر پختونخوا (کے پی) بڑھتی ہوئی آباد سے نمٹنے کے ایجنڈا پر جارحانہ بنیادوں پر عمل پیرا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہسپتالوں میں ہمارا عملہ پیدائش میں وقفہ کے لیے خواتین کو مفت مشورہ دے رہا ہے کیوں کہ یہ آبادی میں اضافہ پر قابو پانے کا بہترین طریقہ ہے۔“

انہوں نے کہا، ”ہم نے عوام میں یہ آگاہی پیدا کرنے کے لیے کہ آبادی پر قابو پانے کے طریقے اسلام میں جائز ہیں، این جی اوز اور مذہبی رہنماؤں کی حمایت بھی داخلِ فہرست کی ہے۔ آسودہ حال خاندانوں اور قوم کی ترقی کے لیے ہمارے ملک کو آبادی پر قابو پانے کے اقدامات کی ضرورت ہے۔“

[پشاور سے اشفاق یوسفزئی نے اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

:l

جواب