ٹیکنالوجی

کالعدم عسکریت پسند گروہ سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں

جاوید محمود

انتہاپسندی کی حامل تصاویر اور پروپیگنڈہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے 44 ملین پاکستانیوں سے صرف ایک کلک کرنے کی دوری پر ہے۔ 5 جولائی کو اسلام آباد میں ایک طالب علم دکھا رہا ہے کہ کس طرح فوری تلاش کے ذریعے عسکریت پسندی کا حامل مواد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ [جاوید محمود]

انتہاپسندی کی حامل تصاویر اور پروپیگنڈہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے 44 ملین پاکستانیوں سے صرف ایک کلک کرنے کی دوری پر ہے۔ 5 جولائی کو اسلام آباد میں ایک طالب علم دکھا رہا ہے کہ کس طرح فوری تلاش کے ذریعے عسکریت پسندی کا حامل مواد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ [جاوید محمود]

اسلام آباد – تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں کالعدم عسکریت پسند گروہ نوجوانوں کو بھرتیوں اور بنیاد پرستی کا شکار بنانے کے لئے سوشل میڈیا کو فعال طور سے استعمال کر رہے ہیں۔

ڈان کی جانب سے کی جانے والی تفتیش سے ظاہر ہوا کہ وزارت داخلہ کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی 64 عسکریت پسند تظیموں میں سے 41 فیس بک پر سرگرم ہیں۔

ڈان نے 13 جون کو بتایا ہے کہ 41 کالعدم تنطیموں کی نمائندگی ان کا نام استعمال کرنے والے 700 سے زیادہ فیس بک صفحات اور گروپس کے ذریعے کی جارہی ہے، اور 160,000 سے زیادہ صارفین نے ان صفحات کو "پسند" کیا ہے۔

ان کالعدم تنظیموں میں فرقہ پرست تنظیمیں، مقامی اور پاکستان میں متحرک بین الاقوامی دہشت گرد گروہ، اور بلوچستان اور سندھ کے علیحدگی پسند گروہ شامل ہیں۔

ملٹی میڈیا کی پوسٹ زیادہ عام ہیں تاہم وقتاً فوقتاً اردو یا رومن اردو میں لکھا تازہ احوال بھی سامنے آتا ہے۔

گروہ کے نظریہ کی وضاحت اور تشریح کے لئے اشتراک شدہ اپڈیٹس میں تصاویر، ویڈیوز اور میمیس شامل ہوتی ہیں۔ حالیہ یا جاری واقعات اور زمینی کارروائیوں سے متعلق تازہ ترین اطلاع فراہم کی جاتی ہے، اور نجی رابطے اور متفق فیس بک صارفین کی بھرتی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ منظم گروہوں کے مستند میڈیا سیلز، پریس ریلیزز اور مذہبی خطبات یا سیاسی تقاریر، صوتی و بصری ہر دو کا اشتراک کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے صفحات اور گروہ ان تنظیموں کے ارکان کی جانب سے چلائے جانے والی ویب سائٹس، بلاگز، یا ٹوئٹر اکاؤنٹس کے رابطے بھی فراہم کرتے ہیں۔

حاصل شدہ نتائج "برفانی تودے کی صرف نوک ہی ظاہر کرتے ہیں کیونکہ صفحات اور گروہوں کی کہیں بڑی تعداد موجود ہوسکتی ہے جو خفیہ طور پر کام کرنے کے لئے عوامی طور سے کالعدم تنظیموں کا نام استعمال نہیں کر رہے ہیں۔"

اس کے علاوہ حکام کے لئے نجی روابط، ای میل، یا فون کی نگرانی سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی پوسٹنگز کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے "کالعدم تنظیم سے متعلق یا دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی صارف یکساں سوچ رکھنے والے صارف سے دوستی اور بات چیت کرسکتا ہے، صفحات اور گروپس چلانے والوں کو پیغامات دے سکتا ہے یا ویب سائٹس اور بلاگز کے مہیا کیے گئے لنکس پر کلک کرسکتا ہے۔"

دہشتگرد 44 ملین پاکستانیوں سے 'ایک کلک' کے فاصلے پر

ادارہ برائے تذویری علوم اسلام آباد میں ایک ریسرچ فیلو اسد اللہ خان نے 30 جون کو ”پاکستان میں انٹرنیٹ اور کالعدم گروہوں کا استعمال“ کے عنوان کی ایک رپورٹ میں لکھا کہ دہشتگرد گروہ ”بھرتیوں، پرپیگنڈا، تربیت، فراہمیٔ مالیات اور دہشتگردی کی کاروائیوں“ کے لیے انٹرنیٹ، بطورِ خاص سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”فیس بک یا [دیگر] سوشل میڈیا کے ذریعے جب وہ کسی فرد کے ناانصافی، لاقانونیت، بدعنوانی اور تذلیل سے متعلقہ جذبات کو ہدف بناتے ہیں تو بھرتی کا عمل نہایت آسان ہو جاتا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا، ”اس بارے میں عمر اور جنس کا بھی استحصال کیا جاتا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ان میں سے متعدد گروہوں کے اپنے متعلقہ اضلاع کے ناموں سے صفحات ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں فعال ہیں، جہاں نظرانداز محسوس کرنے والے باشندے بھرتی کے لیے آسان ہدف ہیں۔

خان کے مطابق، ”دہشتگردوں کے سب سے اہم آن لائن مقاصد بنیاد پرستی اور زد پزیر قارئین کی بھرتی ہیں۔ وہ فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پر افراد کے پروفائیل دیکھ کر ممکنہ بھرتی شدگان اور حامیوں کی فہرست تشکیل دیتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 44 ملین سے زائد افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور وہ تمام صارفین دہشتگرد بھرتی کنندگان سے ”ایک کلک کے فاصلے پر ہیں۔“

خان نے کہا، ”سوشل میڈیا کے ذریعے بنیاد پرستانہ نظریات کے پھیلاؤ کی صورتِ حال۔۔۔ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے قبل اس کے کہ یہ معاشرے کو مزید نقصان پہنچائے۔“

آن لائن بھرتیوں کے خلاف کریک ڈاؤن

حکومت دہشتگردوں اور شدت پسند گروہوں کے خلاف کاروائی کر رہی ہے جو کہ انٹرنیٹ کو زد پزیر پاکستانیوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

وزارتِ داخلہ نے متعلقہ حکام کو فیڈرل انوسٹیگیشن ایجسی (ایف آئی اے) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ساتھ مشاورت سے آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ایک ڈھانچہ بنانے کی ہدایات دی ہیں کہ کوئی سوشل میڈیا کو مذموم مقاصد کے لیے نہ استعمال کرے۔

اسلام آباد اساسی تھنک ٹینک سنٹر برائے تحقیق و علومِ سلامتی کے ایگزیکیوٹِو ڈائریکٹر امتیاز گل نے کہا، ”یہ درست اور بدقسمتی ہے کہ عسکریت پسند تنظیمیں پاکستان میں اپنی ذاتی دلچسپیوں کے حصول کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا عسکریت پسند پیادہ سپاہیوں کی بھرتیوں، ٹارگٹڈ پیغام رسانی، پراپیگنڈا کے پھیلاؤ اور نظریات کی ترسیل کے لیے نہایت سود مند رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”سوشل میڈیا کو عسکریت پسندوں کی پہنچ سے دور رکھنا اب دنیا بھر میں سیکیورٹی تنظیموں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔“

ایک سیکیورٹی تجزیہ کار اور کراچی میں روزنامہ پاکستان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مبشر میر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا،” [دولتِ اسلامیۂ (داعش) اور تحریکِ طالبان پاکستان [ٹی ٹٰی پی] سمیت تمام بڑی دہشتگرد تنظیمیں سوشل میڈیا پر ایک مستحکم موجودگی کی حامل ہیں، جس سے حکومتِ پاکستان اور بین الاقوامی برادری کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کو ایک چیلنج درپیش ہے“.

انہوں نے کہا، ”کچھ عسکریت پسند تنظیمیں پاکستان سے سوشل میڈیا پر کام کرتی ہیں، اور کچھ دیگر ممالک سے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتی ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسندوں نے جعلی شناختوں کے ساتھ سوشل میڈیا اکاؤنٹ، صفحات اور گروپ بنا رکھے ہیں۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان سرفراز حسین نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزارت نے ایف آئی اے کے نیشنل رسپانس سنٹر فار سائیبر کرائمز کو ”عسکریت پسندی اور شدت پسندی کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے افراد اور تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنے“ کی ہدایات دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی عسکریت پسند تنظیم یا فرد کو دہشتگردی کے فروغ کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

حسین نے کہا، ”سوشل میڈیا پر عسکریت پسندوں کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے نظریات پھیلانے اور نئے ارکان بھرتی کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والی کالعدم تنظیموں اور ان کے حامیوں کے خلاف الیکٹرانک جرائم کی انسداد کے ایکٹ 2016 کے تحت قانونی کاروائی کی جائے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500