رمضان

شمالی وزیرستان کے شہری خوشی سے عید الفطر کی تیاری کر رہے ہیں

سید عنصر عباس

خواتین اور لڑکیاں، میر علی، شمالی وزیرستان کے قریب سترہ جون 2017 کو بازار میں کپڑے دیکھ رہی ہیں۔ ]سید عنصرعباس[

خواتین اور لڑکیاں، میر علی، شمالی وزیرستان کے قریب سترہ جون 2017 کو بازار میں کپڑے دیکھ رہی ہیں۔ ]سید عنصرعباس[

میران شاہ، شمالی وزیرستان ءء شمالی وزیرستان کے ہزاروں شہریوں کے لیے اس سال عید الفطر خصوصی طور پر خوشی کا موقع ہو گی۔

ان سابقہ عارضی طور پر بے گھر ہو جانے والے افراد (ٹی ڈی پیز) نے تقریبا تین سال اپنے گھروں سے دور گزارے ہیں جس دوران فوجیوں نے آپریشن ضربِ عضب انجام دیا جو کہ عسکریت پسندوں کو شمالی وزیرستان سے نکال باہر کرنے کی کامیاب مہم تھی جس کا آغاز جون 2014 کو ہوا تھا۔

اس دورانیے میں ان کے ٹھکانے ٹی ڈی پی کیمپوں سے لے کر محفوظ علاقوں میں رشتہ داروں کے گھروں تک مشتمل تھے۔

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے مطابق، اپنے گھروں کو واپس جانے والے 105,676 خاندان ان تقریبا 83 فیصد شہریوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو تین سال پہلے شروع ہونے والی جنگ کے دوران اپنے گھروں کو چھوڑ کر گئے تھے۔

میر علی کے سیاسی تحصیل دار حبیب الرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مقامی انتظامیہ امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکورٹی فورسز میر علی بازار میں گشت کر رہی ہیں اور کلوزڈ سرکٹ ٹی وی (سی سی ٹی وی) کیمرے سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کے لیے نصب کر دیے گئے ہیں۔

مقامی صحافی رسول داور نے کہا کہ اسوری گاوں کے شہری، جس میں 1,800 خاندان ہیں، جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب کے آغاز کے بعد سے، پہلی عیدالفطر اپنے گھروں میں منائیں گے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ تین سال تک ٹی ڈی پیز کے طور پر مردہ دلی سے گزارنے کے بعد "اس بار ہم عید پورے جوش و جذبے سے منائیں گے"۔

خریداری اور جشن

قبائلی شہری جو بری یادوں کو بھول جانے کے مشاق ہیں، عید کے لیے خریداری میں مصروف ہیں جو کہ ان کے ماضی کے تین سالوں کو تجربے کے مقابلے میں نہ صرف ایک خوشی بلکہ ان کی قبائلی ایجنسی کے لیے اقتصادی محرک بھی ہے۔

فوج نے میران شاہ، میر علی، کھاڈی اور ادک میں جو بازار تعمیر کیے ہیں، ان میں ہر عمر کے گاہک، خواتین اور بچے شامل ہیں، سارا دن اور رات بغیر کسی خوف کے خریداری کرتے ہیں۔

اسوری گاوں کے ایک نوجوان، دلاور نے کھاڈی سے اپنے بچوں کے لیے کپڑے خریدنے کے لیے 3 کلومیٹر کا سفر کیا ہے۔

اس نے نئے بازار کے بارے میں کہا کہ "ہر چیز میسر ہے۔ اب ہمیں خریداری کے لیے بنوں جانے کی ضرورت نہیں ہے"۔

مقامی بزرگ ملک عبدل حئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ وہ مٹھائی کی تلاش میں بازار آیا ہے جسے وہ 23 رمضان کو تقسیم کرے گا جو کہ مقامی قبائلی رواج ہے"۔

تاپی کے عبداللہ داور نے کہا کہ اس نے تین سال ٹی ڈی پی کے طور پر بنوں ڈسٹرکٹ میں گزارے ہیں۔ اب وہ واپس آ گیا ہے اور 27 رمضان کو رشتہ داروں اور دوستوں میں گوشت تقسیم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں ایک جانور کی قربانی کروں گا اور دوسروں میں گوشت تقسیم کروں گا"۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بنوں میں ان کے گزارے ہوئے سالوں میں وہ اپنے مالی حالات اور دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا تھا۔

ساری آبادی میں اعتماد پھیل رہا ہے

امن کی بحالی نے شمالی وزیرستان کے کچھ ایسے مقامی افراد میں اعتماد کو بڑھایا ہے جو کافی دور نقل مکانی کر گئے تھے۔

ان میں ڈاکٹر تیمور شاہ بھی شامل ہیں جو کہ تیس سالوں کے وقفے کے بعد، کھاڈی میں عید منانے کے لیے واپس آئے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں روس سے آیا ہوں۔ میں اپنے خاندان کے ساتھ وہاں پر تیس سالوں سے رہ رہا ہوں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "میں بہت حیران ہوا ہوں۔۔۔ یہ دیکھ کر کے وزیرستان میں امن ہے۔ جلد ہی میں اپنے خاندان کے ساتھ مستقل طور پر واپس آ جاوں گا"۔

شمالی وزیرستان کے ایک اور مقامی شخص، گل خان نئے میر علی بازار میں دکان کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں گزشتہ ایک سال سے دبئی میں ڈرائیور ہوں۔ یہاں پر امن کی وجہ سے میں واپس آ گیا ہوں"۔

شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو میران شاہ میں بتایا کہ "ایجنسی میں ہر کوئی خوف سے آزاد ہو گیا ہے"۔

دکان دار ترقی کر رہے ہیں

بڑھتا ہوا کاروبار اور پرامن حالات نے ملک کمال شاہ داور کے لیے خوشی کا باعث ہیں جس نے میر علی سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر کھاڈی میں ایک بازار بنایا ہے۔

داور نے اپنے بنائے جانے والے بازار اور قریب ہی فوج کی طرف سے بنائے جانے والے بازار کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کھاڈی میں کم از کم 1,000 دکانیں ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "تمام دکان دار ہر روز 25,000 سے 30,000 روپے (238 ڈالر سے 286 ڈالر) کا کاروبار کر رہے ہیں جو ان کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے"۔

شمالی وزیرستان میں کئی سالوں تک افراتفری رہنے کے باعث، داور کو سیکورٹی کی ضرورت کا احساس ہے۔

انہوں نے شمالی وزیرستان میں امن کو بحال کرنے اور اسے قائم رکھنے پر فوج اور مقامی انتظامیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "اگرچہ یہاں مکمل امن ہے مگر میں نے سیکورٹی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے ہیں"۔

ایجنسی میں امن کے نئے دور کے دوران دوسرے تاجر بھی پھل پھول رہے ہیں۔

ہائی اسکول کا حالیہ گریجوئٹ امجد خان جو کہ پتاسی اڈا میں رہتا ہے، میر علی کے بازار میں پلاسٹک کے تھیلے فروخت کرتے ہوئے ترقی کر رہا ہے۔

اس نے کہا کہ "عید کے باعث، شاپنگ بیگز کا میرا کاروبار عروج پر ہے"۔

سرحد کھولے جانے کی توقع ہے

پولیٹیکل ایجنٹ آفریدی نے کہا کہ قبائلی معیشت اس وقت مزید بہتر ہو گی جب حکام پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر غلام خان کراسنگ کو دوبارہ کھولیں گے۔

یہ بارڈر کراسنگ آپریشن ضربِ عضب کے آغاز میں بند کی گئی تھی تاہم حکومت کی مختلف سطحوں پر جاری مذاکرات کے باعث، مشاہدین کو توقع ہے کہ یہ عید کے بعد کھل جائے گی۔

آفریدی نے کہا کہ "ایجنسی کی ساٹھ فیصد آبادی گزر اوقات کے لیے تجارت پر انحصار کرتی ہے۔ توقع ہے کہ افغانستان میں رہنے والے تقریبا 3,000 خاندان عید کے بعد شمالی وزیرستان واپس آ جائیں گے"۔

انہوں نے 2016 میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے گھروں کو واپس آنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "پانچ ہزار خاندان جو کہ ضربِ عضب میں افغانستان چلے گئے تھے پہلے ہی پاکستان واپس آ چکے ہیں"۔

کھاڈی میں بازار کے مالک داور نے کہا کہ "اگر عید کے بعد غلام رسول کراسنگ دوبارہ کھل گئی تو اس سے ایجنسی بھر میں کاروبار کو مزید فروغ ملے گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500