سفارتکاری

پاکستانیوں کو ایران کی بڑھتی ہوئی 'ڈبل گیم' پر تشویش

عبدل غنی کاکڑ

مئی میں ایک پاکستانی فوجی ملکی سرحد پر چوکنا کھڑا ہے۔ تہران کی طرف سے پاکستان کے اندر عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی کے بعد، ایرانی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ]پاکستان ڈیفنس[

مئی میں ایک پاکستانی فوجی ملکی سرحد پر چوکنا کھڑا ہے۔ تہران کی طرف سے پاکستان کے اندر عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی کے بعد، ایرانی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ]پاکستان ڈیفنس[

کوئٹہ -- مئی میں سرحد پار فوجی حملوں کی دھمکی پر سفارتی جھگڑے کے بعد سے، پاکستانیوں کو علاقے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور جارحیت پر تشویش ہے۔

تہران نے طویل عرصے سے پاکستان پر "حکومت مخالف" عناصر کو ایرانی حکومت کے خلاف حملے کرنے کے لیے اپنی زمین کو استعمال کرنے کی اجازت دینے کا الزام لگایا ہے۔ اس دعوی کو پاکستان نے مسترد کیا ہے۔

اس مسئلہ نے 8 مئی کو اس وقت پھر سر اٹھایا جب میجر جنرل محمد بقری جو کہ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ پاکستان کو سرحد کی اپنی طرف کو کنٹرول کرنا چاہیے اور دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کے خلاف اقدامات کرنے چاہیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق، بقری نے کہا کہ "اگر دہشت گردانہ حملے جاری رہے تو ہم ان کی پناہ گاہوں اور سیلوں کو نشانہ بنائیں گے خواہ وہ کہیں بھی ہوں"۔

یہ انتباہ عسکریت پسندوں کے مبینہ سرحد پار چھاپے کے بعد آیا جس کا نتیجہ ایران کے کم از کم دس سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی صورت میں نکلا۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ "ایران پر زور دیا گیا کہ وہ ایسے بیانات جاری کرنے سے اجتناب کرے جس سے برادارانہ تعلقات کے ماحول کی خلاف ورزی ہو"۔

ایران "امن کے راستے میں رکاوٹیں" ڈال رہا ہے

کوئٹہ کے ایک سیاسی تجزیہ نگار، محمد حکیم بلوچ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایران کی مسلح افواج کے سربراہ کی طرف سے حالیہ انتباہ ایک بہت بڑی خلاف ورزی اور جارحیت کو فروغ دینے کی کوشش ہے"۔

انہوں نے ان الزامات کے حوالے سے کہ ایران کے پاس سیکورٹی کی کمی ہے اور وہ دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتا ہے، کہا کہ "یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایران کو ہماری زمین پر اس کے اثر و رسوخ کے بارے میں زیادہ موثر طریقے سے جواب دے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران کی طرف سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کو سرمایہ فراہم کرنے سے امن کے جاری عمل میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ایران کو برادارانہ تعلقات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے، سرحد کی اپنی طرف کو محفوظ بنانا چاہیے"۔

بلوچ نے کہا کہ "ایران کے اندر کام کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کا مقابلہ کرنا پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایران کو اندرونِ ملک پیدا ہونے والی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات اٹھانے چاہیں"۔

"ایران مشرقِ وسطی میں تباہی مچا رہا ہے اور اب پاکستان اور افغانستان میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علاقے پر بھی اپنی برتری قائم کرنا چاہتا ہے"۔

ڈبل گیم کھیلنا

اسلام آباد کے ایک سیکورٹی تجزیہ نگار محمد راشد نے کہا کہ "اب اس بات کو محسوس کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ ایران بغاوت اور دکھاوے کی دوستی کے درمیان ردوبدل سے ڈبل گیم کھیل رہا ہے اور علاقے میں امن کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ ہم اپنی زمین پر ایران کے اثر و رسوخ کے متحمل نہیں ہو سکتے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایرانی حکومت اپنے نظریات کو ہمسایہ ممالک کو برآمد کرنے کی خواہش مند ہے اور پاکستان اس ایجنڈا کے راستے میں صفِ اول کی حثیت رکھتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ قدم خودمختاری کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ایران پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد کو ہوا دے رہا ہے اور اس کی پراکسی شمولیت کی وجہ سے ہماری اندرونی سیکورٹی کو نقصان پہنچ رہا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو ایران کی جارحیت کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے اور "اس کا فوری اور دندان شکن جواب دینا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری زمین کسی بھی غیر ملکی ایجنڈا کا میدانِ جنگ نہیں ہونی چاہیے"۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سینئر دفاعی تجزیہ نگار میجر (ریٹائرڈ) محمد عمر نے کہا کہ پاکستان کے خلاف ایرانی جارحیت ناقابلِ برداشت ہے اور اس کے لیے وزارتِ دفاع کی طرف سے سخت ردعمل درکار ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستان ایک امن سے محبت کرنے والا ملک ہے اور وہ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران اور سعودی عرب میں دشمنی پاکستان کی اندرونی سیکورٹی کو متاثر کر رہی ہے۔ اس لیے ہمیں ایسی پراکسی کی شمولیت سے آزاد رہنے کی پالیسی کو اپنانا چاہیے"۔

ذمہ داری کو قبول کرنا

وزارتِ دفاع کے ایک سینئر اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایران دعوی کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ دفاعی پوزیشن میں ہے اور اسے اس کے سرحدی علاقوں میں بہت شدید جارحیت کا سامنا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اس لیے، میری رائے میں، ایرانی حکومت کو اپنے تنازعات کے مناسب حل کو یقینی بنانا چاہیے بجائے اس کے کہ وہ دوسروں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار قرار دے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے ملک کی قیادت کا اصل امتحان ایک ایسی حکمتِ عملی کو اپنانا ہے جو پاکستان کے مفادات کو پورا کرے نہ کہ دوسروں کے۔ ہم اپنے علاقے میں مزید اختلافات اور غیر ملکی مداخلت کے متحمل نہیں ہو سکتے"۔

عابد نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان طاقت کی جدوجہد اور فرقہ واریت کو ایسے عناصر کے طور پر بیان کیا جو سفارتی ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "دونوں ممالک پاکستان کی اسٹریٹجک حمایت حاصل کرنے کی نہایت جوش سے کوشش کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ایران کا مقصد، اپنی بنیاد پرستانہ لگن کے علاوہ، شیعہ برادری کو اپنے مقاصد کے لیے متحرک کرنا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو شیعہ مقاصد کا محافظ قرار دیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران پاکستان کے مختلف علاقوں میں ثقافتی مراکز چلا رہا ہے جو "پاکستان میں ایران کا پراپیگنڈا پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں ایسے مراکز پر کڑی نظر رکھنی چاہیے"۔

بارڈر سیکورٹی

عابد نے کہا کہ پاکستان اپنے دائرہ کار اور پاکستانی-ایرانی سرحد پر سیکورٹی کو قائم رکھنے کا عزم رکھتا ہے مگر ایران کو اپنی طرف کی سرحد کی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ "ایران کا پاکستان میں ملوث ہونا اور اس کے ہماری خودمختاری کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیانات ہمارے تعلقات میں تباہی پھیلا رہے ہیں"۔

ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جاوید ظریف نے تین مئی کو اسلام آباد کا دورہ کیا اور پاکستانی راہنماؤں جن میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی شامل ہیں، کے سامنے سرحدی سیکورٹی کا مسئلہ اٹھایا۔

دونوں اطراف نے سرحدی سیکورٹی میں ہم آہنگی کو بڑھانے جس میں پاکستانی اور ایران کے سرحدی افواج کے درمیان ہاٹ لائن کو دوبارہ بحال کرنے کے بارے میں "اصولی طور پر" ایک معاہدہ بھی شامل ہے، پر اتفاق کیا۔ یہ بات ان ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہی گئی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاکستان کو اپنے مسلمان ہمسایوں سے نفرت کو پروان چڑھانے کے بجائے عسکریت پسندی کے خلاف لڑائی پر مرکوز رہنا چاہیئے۔

جواب

ایران ایک مسلمان مخالف ریاست ہے جو خود کو اسرائیل کے خلاف ظاہر کرتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایران دنیا میں یہودیوں کا دوسرا بڑا وطن ہے۔ اصفہان ایران۔ پھر ایران مسلم دنیا کے حق میں کیسے ہو سکتا ہے۔ آپ دجال کے بارے میں اسلامی پش گوئیاں بھی پڑھ سکتے ہیں۔

جواب

یہ مشرقِ وسطیٰ اور اس خطے میں اپنے مفادات کا دفاع کرنے اور داعش، القاعدہ اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کا سامنا کروا کر مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان پر حکمرانی کرنے کا امریکی اور اسرائیلی اور بھارتی را کا گیم پلان ہے جس کا نفاذ سعودی اور ان کی اتحادی لابیز کر رہی ہیں۔ اب سب پہلے سے بہتر آگاہی رکھتے ہیں۔

جواب

کیا پاکستان ایک امن پسند ملک ہے؟

جواب