رواداری

پشاور میں سکھوں کی طرف سے افطار بین المذہبی ہم آہنگی کا پیغام پھیلا رہا ہے

عدیل سید

پشاور کے ایک سکھ شہری، صاحب سنگھ، آٹھ جون کو پشاور میں روزہ دار مسلمانوں میں افطار تقسیم کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

پشاور -- پشاور کے سکھ شہری، صاحب سنگھ، اسلامی رسومات کے بارے میں احترام کا اظہار کرتے ہوئے، اپنے قرب و جوار میں روزہ دار مسلمانوں میں افطار تقسیم کر رہے ہیں۔

مختلف پس منظروں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی، ان کی خدمت پر ان کی تعریف کر رہے ہیں جسے انہوں نے ملک میں بین المذہبی ہم آہنگی کی ایک ٹھوس نشانی قرار دیا۔

سنگھ نے ڈبگری کے علاقے میں اپنی فارمیسی کے باہر جمع ہونے والے مسلمانوں میں پلاسٹک کے لفافوں میں میٹھا مشروب تقسیم کرتے ہوئے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم (سکھ) ان کی مذہبی رسومات کا مکمل احترام کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "شدید گرمی کے دوران، دن بھر روزہ رکھنے پر ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے میں انہیں ٹھنڈا میٹھا مشروب اور دہی پیش کرتا ہوں"۔

صاحب سنگھ (بائیں) اور ان کے بھائی نام سنگھ، پشاور میں 2 جون کو روزہ دار مسلمانوں میں میٹھا مشروب تقسیم کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

صاحب سنگھ (بائیں) اور ان کے بھائی نام سنگھ، پشاور میں 2 جون کو روزہ دار مسلمانوں میں میٹھا مشروب تقسیم کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

انہوں نے کہا کہ "روزہ دار مسلمانوں کے لیے اپنی دکان کے باہر کھانے کا اسٹال لگانے کی ایک اور وجہ عالمی برادری کو پاکستان کی حقیقی شکل کے بارے میں بتانا ہے -- جہاں مختلف مذاہب امن اور محبت سے مل جل کر رہ سکتے ہیں"۔

سنگھ نے کہا کہ "مختلف مذاہب کا مل جل کر رہنا، اس علاقے کی صدیوں پرانی روایت ہے اور اسے ہم نے اپنے باپ، دادا سے ورثے میں پایا ہے جو اپنے مذہبی عقائد سے بالاتر ہو کر اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ محبت اور امن سے رہتے رہے ہیں"۔

مسلمانوں اور اقلیتوں میں فاصلے کم کرنا

سنگھ نے کہا کہ پاکستان میں ایک دہائی سے جاری مذہبی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی، جس کا ارتکاب مٹھی بھر دہشت گردوں نے کیا ہے، نے مسلمانوں اور اقلیتی برادریوں میں فاصلہ پیدا کر دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اس فاصلے کو ختم کرنے اور پاکستانیوں کو مل جل کر پرامن طریقے سے رہنے کے صدیوں پرانے طریقے پر واپس لانے کے لیے، ہمیں ایک دوسرے کی مذہبی رسومات کا احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے سے ہمدردی کرنی چاہیے"۔

سنگھ نے کہا کہ وہ اس کام میں تنہا نہیں ہیں کیونکہ پاکستان کے بہت سے دوسرے علاقوں میں بھی سکھ مسلمانوں کے لیے افطار کا بندوبست کر رہے ہیں جس میں حسن ابدال، لاہور اور کراچی شامل ہیں۔

پشاور کی ہندو برادری بھی مسلمانوں کو افطار پیش کرنے کی رسم کو نقل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

ہندو برادری کے نمائندے اور پاکستان کونسل آف ورلڈ ریلیجن کے بانی رکن، ہارون سربدیال نے کہا کہ "صاحب سنگھ کے مثبت قدم کو خوش آمدید کہتے ہوئے، ہندو برادری نے بھی اس رواج کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد مختلف عقائد کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اس سلسلے میں، ہندو برادری کے ارکان مولانا طیب قریشی کے ساتھ ان کی واپسی پر، گفت و شنید کا اہتمام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جو پشاور کی محبت خان مسجد کے امام ہیں۔ وہ اس وقت عمرہ کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔

سربدیال نے کہا کہ صوبہ سندھ میں، ہندو پہلے ہی مسلمانوں کے لیے افطار کی تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "یہ سچا معمول اور روح ہے ۔۔۔ اس علاقے کے شہریوں کی -- کہ وہ ہابمی تعاون اور مذہبی برداشت کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں"۔

پشاور کے بشپ ہمفری سرفراز پیٹرز نے کہا کہ "یہ صاحب سنگھ کی طرف سے اٹھایا جانے والا بہت قابلِ تعریف قدم ہے کہ دنیا کو بتایا جائے کہ پاکستان میں تمام مذاہب امن اور برداشت سے مل جل کر رہتے ہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ مثبت قدم ہمیں پیغام دیتا ہے کہ زندگی میں انسانیت ہر چیز سے زیادہ اہم ہے"۔

پیٹرز نے کہا کہ "یہ ہماری صدیوں پرانی بھائی چارے کی ثقافت ہے اور ایسے کاموں سے نہ صرف وہ روح بحال ہو گی بلکہ مسقبل کی نسلوں کے لیے اسے محفوظ بھی بنایا جا سکے گا"۔

اسلام کی حقیقی تعلیمات

پشاور یونیورسٹی میں شیخ زاہد اسلامک سینٹر کے سابقہ ڈائریکٹر عبدل غفور نے کہا کہ "یہ سکھ برادری کے ارکان کی طرف سے اٹھایا جانے والے بہت قابلِ تعریف قدم ہے اور مسلمانوں کو اس سے بھائی چارے کا سبق حاصل کرنا چاہیے"۔

غفور نے کہا کہ ایک سکھ کی طرف سے افطار کا انتظام کرنا اسلام کی اصلی تعلیمات ہیں جو رمضان کے مہینے میں، دوسری سے ہمدردی کا اظہار کرنے کا سبق دیتا ہے خصوصی طور پر غریبوں سے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں تمام مذاہب کے لیے سبق ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ دوسروں کی مقدس رسومات کے احترام "کو تمام مذاہب کے ارکان کو اپنانا چاہیے تاکہ بین المذہبی ہم آہنگی، امن اور محبت کو فروغ دیا جا سکے اور مل جل کر رہنے کے ماضی کے شاندار زمانے کو دوبارہ سے بحال کیا جا سکے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایسے کاموں سے، ہمارے معاشرے میں مذہبی بنیاد پرستوں کی طرف سے جو نفرت بوئی گئی ہے اسے پسپا کر کے اسے شکست دی جا سکتی ہے"۔

انسانیت تمام مذاہب سے بڑھ کر ہے

سنگھ کے اس قدم کو دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر سراہا گیا ہے۔

ٹوئٹر کو استعمال کرنے والے عبید علی جو کہ متحدہ عرب امارات میں قیام پذیر پاکستانی ہیں، نے کہا کہ "پشاور میں سکھ روزہ داروں میں دودھ تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ #پاکستان ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ امن سے رہتے ہیں"۔

انڈیا سے تعلق رکھنے والی بلاگر ہرشلین آنند نے کہا کہ "محبت اور انسانیت موجود ہے، اگر ہم لوگوں کو رہنے دیں اور مذہب کو نفرت سے گندا نہ کریں"۔

سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے افطار اور مشروبات کو تقسیم کرنے کی تصاویر کو پوسٹ کرتے ہوئے، ہرشلین نے لکھا کہ "انسانیت ان سب میں سے سب سے بڑا مذہب ہے اور پاکستانی سکھوں کی طرف سے اپنے مسلمان بھائیوں میں افطار تقسیم کرتے ہوئے کی تصاویر اس دنیا کو بہتر جگہ بنا رہی ہیں"۔

ڈبگری کے علاقے کے ایک مسلمان رہائشی ہاشم علی نے کہا کہ "صاحب سنگھ نے روزہ دار مسلمانوں کی طرف ہمدردی اور بھائی چارے کا پیغام پہنچایا ہے اور ہم مسلمانوں کو اس کا جواب اسی جذبے اور احترام سے دینا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ ڈبگری میں مسلمان اور سکھ پرامن طریقے سے مل کر رہتے ہیں۔

علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ"یہ پاکستان کی حقیقی شکل ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ امن سے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے محبت اور پیار کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

subhanallah

جواب

اچھی تحریر ہے پسند آئی ہے.شکریہ

جواب