مذہب

پاکستان کے دینی عالموں نے دہشت گردی کے خلاف فتوی جاری کیا ہے

جاوید خان

سہون، صوبہ سندھ میں صوفی بزرگ لال شہباز کے مزار پر17 فروری کو خون سے داغدار فرش پر بچے کی دودھ کی بوتل پڑی ہے، اس سے ایک دن پہلے مزار پر ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ دھماکے کے فورا بعد پاکستان نے ملک بھر میں کریک ڈاون کیا جس کی ذمہ داری دولتِ اسلامیہ (داعش) نے قبول کی تھی۔ ]آصف حسین/ اے ایف پی[

سہون، صوبہ سندھ میں صوفی بزرگ لال شہباز کے مزار پر17 فروری کو خون سے داغدار فرش پر بچے کی دودھ کی بوتل پڑی ہے، اس سے ایک دن پہلے مزار پر ہونے والے بم دھماکے میں کم از کم 70 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ دھماکے کے فورا بعد پاکستان نے ملک بھر میں کریک ڈاون کیا جس کی ذمہ داری دولتِ اسلامیہ (داعش) نے قبول کی تھی۔ ]آصف حسین/ اے ایف پی[

اسلام آباد - پاکستان کے دینی عالموں کے ایک گروہ نے ہفتہ (27 مئی) کو اسلام آباد میں اعلان کیا کہ خودکش حملے، ریاست کے خلاف شورش اور شریعت کے نام پر کسی قسم کی بھی دہشت گردانہ سرگرمیاں اسلام میں حرام (سختی سے منع) ہیں۔

مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے اکتیس مذہبی عالموں نے ایک سیمینار کے دوران، جسے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے منظم کیا تھا، متفقہ طور پر ایک فتوی پر دستخط کیے۔

مفتی رفیع عثمانی نے 22 نکاتی فتوی کو بلند آواز میں پڑھا جس میں خودکش دھماکوں اور ہر قسم کی دہشت گردی کو حرام کہا گیا اور اس میں ملوث ہونے والوں کو غدار قرار دیا گیا۔

اس فتوی کے مطابق، تشدد کو "جہاد" کے نام پر استعمال کرنا اسلامی نہیں ہے۔

اس میں پاکستان کی فوج اورآپریشن ضربِ عضب اورآپریشن ردالفسادجن کا آغاز بالترتیب جون 2014 اور فروری 2017 میں ملک کے مختلف علاقوں میں ہوا کی مکمل حمایت کی گئی ہے، جن کا مقصد عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانا اور امن کو بحال کرنا ہے۔

جن مذہبی علماء نے اس فتوی پر دستخط کیے ان میں درج ذیل شامل ہیں: عثمانی، مولانا حمید الحق حقانی (مولانا سمیع الحق کے بیٹے)، مفتی محمد منیب الرحمان، قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا عبدل رزاق، مفتی محمد نعیم، علامہ سید ریاض حسین رضوی، مولانا محمد یاسین ظفر، مولانا غلام محمد سیالوی، صاحب زادہ مولانا زاہد محمود قاسم اور محمود الحسن شاہ مسعودی۔

دینی علماء نے مشترکہ طور پر ایک قرارداد کی منظوری بھی دی جسے "پیغامِ پاکستان" کا نام دیا گیا ہے۔

یہ قرارداد جسے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر معصوم یاسین زئی نے پڑھا، میں انتہاپسندی کو ہوا دینے والی تمام قوتوں کے خلاف اقدامات، توہینِ رسالت سے متعلقہ قانون کے حقیقی نفاذ اور گروہ کی طرف سے "انصاف" کی ذہنیت کی حوصلہ شکنی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

نوجوانوں کو عسکریت پسندی سے دور لے جانا

اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، صدر ممنون حسین نے اس اعلانیے کو "تاریخی قدم" قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ "ہم مذہبی علماء کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ایک بیانیہ دیں مگر اچھی بات یہ ہے کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے اس معاملے میں برتری حاصل کر لی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ مقابلے کے بیانیہ کو بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انتہاپسندی، نفرت اور دہشت گردی کے بیانیہ کی نفی کی جا سکے اور امن، ہم آہنگی اور دوسروں کے لیے احترام کو فروغ دیا جا سکے۔

حسین نے کہا کہ "مسلمان ہونے کے ناطے" ہم پوری دنیا میں امن کی تمنا رکھتے ہیں اور ساری انسانیت کے لیے ترقی، خوشحالی اور بھلائی کی خواہش رکھتے ہیں۔

مذہبی علماء اور تجزیہ نگار امید رکھتے ہیں کہ اس فتوی سے نوجوانوں اور معاشرے کے دوسرے کمزور عناصر کو عسکریت پسندی کی طرف سے جانے سے روکنے میں مدد کرے گا۔

پشاور کے ایک مدرسہ کے استاد مولانا اسد اللہ نے کہا کہ "کسی کو بھی مارنا اسلام میں بہت بڑا گناہ ہے اور جو لوگ تشدد کے لیے مذہب کا نام استعمال کر رہے ہیں وہ ہمارے مذہب کو نقصان پہنچا رہے ہیں"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "حضرت محمد (صلی اللہ وعلیہ وسلم) نے اس وقت اپنے تمام دشمنوں کو معاف کر دیا جب مسلمانوں نے مکہ کو فتح کیا۔ اسلام یہ ہی سکھاتا ہے:امن اور سب کے لیے محبت

اسلام آباد کی سیاسی تجزیہ نگار اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن، ماروی سرمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دیوبندی حامی بیس یقینی طور پر اس حکمنامے کو سنے گی اور دہشت گردی کی مخالفت کرے گی"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سترہ سال سے تشدد کا نشانہ بنا ہوا ہے اور عسکریت پسندوں کی نئی نسل اپنے پیشرو کے مقابلے میں زیادہ بے رحم ہے۔

دہشت گردی کے خلاف پرانے فتوے

بہت سے پاکستانی مذہبی علماء نے ماضی میں دہشت گردی اور تشدد کے کاموں کے خلاف فتوے جاری کیے ہیں۔

مثال کے طور پر، پاکستان کے اسلامی عالم مولانا حسین جان مدنی، اسلام کے بارے میں اپنے معتدل خیالات اور خودکش دھماکوں کے بارے میں اپنے فتووں کے لیے جانے جاتے ہیں۔

انہیں 17 ستمبر 2007 کو پشاور میں قتل کر دیا گیا اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں ان نظریات کو پشاور کی مسجدوں اور اسلامی یونیورسٹیوں میں پھیلانے پر قتل کیا گیا۔

ایک اور مذہبی عالم اور سیاست دان محمد طاہر القادری نے مسلسل دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

مارچ 2010 میں، انہوں نے چھہ سو صفحوں کا ایک تفصیلی فتوی جاری کیا جس میں انہوں نے دہشت گردی کی تمام شکلوں کو جس میں خودکش دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور مقامی اور غیر ملکی سیکورٹی افواج پر حملوں کو حرام قرار دیا تھا۔

اس فتوی میں قرآن اور سنت سے ثبوت پیش کیے گئے تھے کہ خودکش دھماکے غیر منصفانہ اور شیطانی ہیں اور اس لیے غیر اسلامی ہیں۔

قادری نے اپنے فتوی میں لکھا کہ "بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ دہشت گردی اسلام میں غیر قانونی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500