جرم و انصاف

اے پی ایس والدین کا احسان اللہ احسان پر فوجی مقدمہ چلانے کا مطالبہ

اشفاق یوسفزئی

آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں ہونے والے قتل عام میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین 16 دسمبر 2016 کو پشاور میں حملے کی دوسری برسی کے سلسلے میں جمع ہیں۔ اے پی ایس والدین چاہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ [آصف حسن/ اے ایف پی]

آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں ہونے والے قتل عام میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین 16 دسمبر 2016 کو پشاور میں حملے کی دوسری برسی کے سلسلے میں جمع ہیں۔ اے پی ایس والدین چاہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ [آصف حسن/ اے ایف پی]

پشاور— پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر دسمبر 2014 میں ہونے والے طالبان حملے میں ہلاک جانے والے 150 کے قریب بچوں کے والدین چاہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔

احسان نے حال ہی میں پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے سامنے ہتھیار ڈالے اور وہ ان کی تحویل میں ہے۔

26 اپریل کو جاری کیے گئے ایک تنقیدی اعتراف میں احسان نے شدت پسند کمانڈروں سے بیزاری کا اظہار کیا جو اسلام کو توڑمروڑ کر نوجوانوں میں بے گناہوں کے قتلِ عام اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ .

اس نے کہا، ”نام نہاد 'جہادی' لوگوں کو، خصوصا نوجوانوں کو، اسلام کے نام پر گمراہ کرتے ہیں۔“ اس نے مزید کہا کہ ”عام مقامات پر بم دھماکے اور سکولوں اور یونیورسٹیوں پر حملے“ جیسے جرائم اسلامی تعلیمات کو بدنام کرتے ہیں۔

غمزدہ والدین صرف اور صرف انصاف چاہتے ہیں۔

فوجی عدالت میں انصاف کی تلاش

فضل خان، جس کا آٹھویں جماعت کا طالبعلم بیٹا صاحبزادہ عمر خان اے پی ایس میں ہونی والی خونریزی میں مارا گیا تھا، نے 9 مئی کو پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں حکومت کو ہدایت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ احسان کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جائے۔

خان نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ احسان ٹی ٹی پی کا ترجمان تھا جس نے اگلے ہی روز فتحمندانہ انداز میں اس قتلِ عام کی ذمّہ داری قبول کی۔ لہٰذا فوج کو اس پر دہشتگردی کا مقدمہ چلانا چاہیئے۔

پاکستانی حکومت نے جنوری 2015 میں فوجی عدالتیں قائم کی تھیں تاکہ دہشت گردی کے ملزمان کے مقدمات کی فوری سماعت کی راہ ہموار کی جا سکے۔

انہوں نے کہا، ”ہم پر امّید ہیں کہ انصاف کا بول بالا ہو گا اور اس قتلِ عام کے ذمہ دار دہشتگردوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ حکومت کو اے پی ایس کے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیئے۔“

خان نے کہا کہ حملہ کے مرتکبین کے لیے تیز تر انصاف اس صدمہ میں کسی حد تک تخفیف کر دے گا جس سے اے پی ایس متاثرین کے والدین اور دیگر رشتہ دار تاحال گزر رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا، ”معصوم بچوں کے قاتلوں کو پناہ کی پیشکش کرنے میں کوئی منطق نہیں۔“

ایک ناقابلِ معافی جرم

علی رحمٰن جن کا چھوٹا بیٹا محمّد رحمٰن حملے میں جاںبحق ہوا، احسان کے خلاف عسکری عدالتی کاروائی کی مکمل طور پر حمایت کرتے ہیں۔ محمّد 11 برس کا تھا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”سوگوار خاندانوں کو ایک مثبت پیغام دینے کے لیے احسان اللہ کے خلاف مقدمہ چلا کر اسے سزا دی جانی چاہیئے۔ ہمیں انصاف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔“

انہوں نے کہا، ”ہم قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے کیوں کہ یہ جرم ناقابلِ معافی تھا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی کے سپاہی کو چھوٹ دینے سے ان کو ایک غلط پیغام جائے گا جو توقع کرتے ہیں کہ حکومت ہمیں انصاف فراہم کرے گی۔

انہوں نے کہا، ”احسان کو سزا ملنے سے ہمیں کچھ اطمینان ملے گا۔ اگر اسے سزا نہیں دی جاتی تو جاںبحق ہونے والوں کے خاندانوں کو شدید مایوسی ہو گی۔“

انہوں نے کہا، ”میری حکومت سے اپیل ہے کہ والدین کی بدحالی کا نوٹس لے اور احسان کے مقدمہ کو شفاف عدالتی کاروائی کے لیے فوج کو بھیجا جائے۔“

احسان کے خلاف ایک واضح مقدمہ

ڈان کے ایک مقالہ نگار خادم حسین سابق طالبان رہنما کے خلاف فوری سماعت کا عسکری مقدمہ چلائے جانے کے والدین کے مطالبہ کی تائید کرتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اے پی ایس حملہ میں اپنے بچے کھو بیٹھنے والے والدین کے مطالبات برحق ہیں۔“

انہوں نے کہا نہ صرف والدین بلکہ عوام بھی چاہتی ہے کہ حکومت گرفتار شدہ طالبان رہنماؤں کے مقدمہ کو عسکری عدالتوں میں بھیجنے میں تاخیر نہ کرے، انہوں نے مزید کہا، ”عوام کو عسکری عدالتوں پر یقین ہے۔“

انہوں نے کہا، ”عسکری عدالتوں کا ریکارڈ نہایت حوصلہ افزا ہے کیوں کہ شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو قتل کرنے میں ملوث افراد کو سزائیں مل چکی ہیں۔“

حسین نے کہا، ”احسان کے مقدمہ کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر حملہ کے بعد [ٹی ٹی پی] کے لیے ذمہ داری قبول کیا کرتا تھا۔“

دہشتگرد 'عوام کو جبراً مطیع' نہیں کر سکتے

پشاور کے وکیل شاہ نواز خان نے کہا کہ حکومت نے اس امر کو یقینی بنانے کے لیے عسکری عدالتین تشکیل دی تھیں کہ پر تشدد شدت پسند نسبتاً خاصی سست عوامی عدالتوں کا استحصال کرنے کے بجائے ایک تیز تر عدالتی کاروائی کا سامنا کریں۔

انہوں نے کہا عسکری عدالتوں نے درجنوں دہشتگردوں کو سزائیں دی ہیں، جس سے دہشتگردانہ کاروائیوں میں اپنے دوست، رشتہ دار یا املاک کھو بیٹھنے والوں کو اطمینان حاصل ہوا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”[احسان کا] مقدمہ عسکری عدالتوں کے لیے موزوں ہے کیوں کہ ملزم نے ماضی میں تمام ٹی ٹی پی حملوں کا اعتراف کیا ہے۔“

پشاور کے ایک سرکاری ملازم جن کا بیٹا اجمل اے پی ایس حملے میں جاںبحق ہوا تھا، کہتے ہیں کہ ان کا خاندان احسان کی گرفتاری پر نہایت خوش تھا اور اب وہ اس کا مقدمہ چلنے کے منتظر ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اگر اسے سزائے موت دی جائے تو یہ متاثرہ خاندانوں کے لیے ایک بہت بڑی خدمت ہو گی۔“

خان نے کہا، ”ہم ایک مدّت سے طالبان کی مذمت کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ دہشتگرد لوگوں کو جبراً مطیع کر سکتے ہیں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500