رمضان

پاکستان رمضان سے پہلے "محفوظ خیرات" کے بارے میں آگاہی پیدا کر رہا ہے

ضیاء الرحمن

کراچی کے شہری 5 مئی کو مقامی فلاحی ادارے، سیلانی ویلفیر ٹرسٹ کی طرف سے قائم کیے جانے والے لو لگنے کے انسدادی مرکز میں پانی پی رہے ہیں۔ بہت سے فلاحی ادارے اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں رمضان سے پہلے قابلِ اعتماد فلاحی اداروں کے بارے میں آگاہی پیدا کر رہی ہیں۔ ]ضیاء الرحمن[

کراچی کے شہری 5 مئی کو مقامی فلاحی ادارے، سیلانی ویلفیر ٹرسٹ کی طرف سے قائم کیے جانے والے لو لگنے کے انسدادی مرکز میں پانی پی رہے ہیں۔ بہت سے فلاحی ادارے اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں رمضان سے پہلے قابلِ اعتماد فلاحی اداروں کے بارے میں آگاہی پیدا کر رہی ہیں۔ ]ضیاء الرحمن[

کراچی - پاکستانی کی سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں کہ رمضان کے دوران دیے جانے والی خیرات و صدقات اصلی فلاحی تنظیموں کو جائیں نہ کہ عسکریت پسند گروہوں کی جیبوں میں۔

ان کی کوششوں کا مقصد پاکستانیوں میں آگاہی پیدا کرنا ہے جو کہ مسلمانوں کے مقدس مہینے اور اس کے بعد عید الفطر اور عید الاضحی کے دوران بہت فراخ دلی سے عطیات دیتے ہیں۔

پاکستان کی حکومت نے گزشتہ سال بنیاد پرست تنظیموں پر زکوة اور صدقہِ فطر یا فطرانہ جو کہ خصوصی طور پر رمضان کے مقدس مہینے میں دیا جانے والا عطیہ ہے، جمع کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروہ جنہیں اس کے نتیجے میں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اب خیر خواہوں کو دھوکہ دینے کے نئے طریقے وضح کر رہے ہیں۔

پاکستانیوں کی سخاوت کا ناجائز استعمال

تاریخی طور پر، طالبان کے عسکریت پسندوں نے رمضان کے دوران پاکستانی مسلمانوں کی سخاوت کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔

عسکریت پسند گروہون نے جعلی فلاحی اداروں بنائے ہیں اور وہ زکوة اور فطرانہ اکٹھا کرنے کے خواہش مند ہیں جن سے مبینہ طور پر غریبوں کی مدد کی جائے گی جب کہ حقیقت میں یہ رقم دہشت گردی کے لیے سرمایہ فراہم کرنے اور ہتھیار خریدنے کے لیے استعمال ہو گی۔

پاکستان میں نجی طور پر دیے جانے والے عطیات تقریبا 554 بلین روپے (5.3 بلین ڈالر) سالانہ کے ہوتے ہیں جن میں سے اکثریت مدرسوں، مسجدوں، غریبوں اور بے گھر افراد کو دی جاتی ہے۔ یہ بات اسلام آباد کے ایڈووکیسی گروپ انڈوجول لینڈ (آئی ایل) نے بتائی جو "محفوظ خیرات" نامی آگاہی کی مہم چلا رہا ہے۔

آئی ایل کی ڈائریکٹر گل مینا بلال نے تین مئی کو کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں منعقد کیے جانے والے محفوظ خیرات کے سیمینار کے دوران کہا کہ "تقریبا 78 فیصد پاکستانی خیرات دیتے ہیں جب کہ 69 فیصد رقم کی صورت میں خیرات دیتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری تحقیق کے دوران، ہمیں پتہ چلا کہ اس بات کا پتہ چلانا مشکل ہے کہ آیا لوگوں کی طرف سے دیے جانے والے عطیات اصلی تنظیموں کو جا رہے ہیں یا نہیں"۔

انہوں نے کہا کہ صرف 2 فیصد پاکستانیوں کو ہی اس بات سے آگاہی ہے کہ ان کی سخاوت سے عسکریت پسندی کو بھی سرمایہ فراہم کیا جا سکتا ہے جب کہ 26 فیصد نے کہا کہ انہیں اس بات کا پتہ نہیں ہے کہ لینے والوں نے ان کے عطیات کو کیسے استعمال کیا ہے۔

بلال نے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور حکومت اور سول سوسائٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستانیوں کی اس بات میں حوصلہ افزائی کرنے میں اہم کردار ادا کریں کہ صرف انہیں اداروں کو عطیات دیں جن کے بارے میں جانچ پڑتال ہو چکی ہے۔

"محفوظ خیرات" آگاہی کی مہمات

پاکستانی مسلمان سالانہ کروڑوں روپے زکوة، عشر اور فطرانہ کی صورت میں عطیہ کرتے ہیں۔ یہ بات ابوبکر یوسف زئی نے کہی جو کہ کراچی میں قائم سسٹینایبل پیس اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس پی اے ڈی او) کے ساتھ کام کرتے ہیں جو محفوظ خیرات کے بارے میں آگاہی کی مہمات منعقد کر رہی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ عطیات دینے والوں کو عطیات جمع کرنے والے گروپ کے بارے میں یا ان کی رقم سے کس کی مدد ہوتی ہے، کے بارے میں کافی معلومات حاصل نہیں ہیں"۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ عسکریت پسندوں نے حکومت کی طرف سے ان کے عطیات جمع کرنے پر لگائی جانے والی تسلیم شدہ موثر پابندی کو جُل دینے کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر، وہ کاروباری اور رہائشی علاقوں میں گھر گھر جا کر لوگوں سے پیسے ہتھیانے کے لیے اپنے آپ کو خیراتی اداروں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "اب لوگوں کو تعلیم دینے کا درست وقت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے، ایس پی اے ڈی او اور سول سوسائٹی کے دوسرے گروہ منتخب شدہ مقامی حکام، بزرگوں، نوجوانوں کے گروہوں اور پولیس کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں سیمینار اور لیکچر بھی منعقد کر رہے ہیں۔

ایس پی ڈی او کی ایک ٹیم کراچی کے علاقے ہجرت کالونی میں منتخب شدہ مقامی حکام سے 3 مئی کو ملے تاکہ انہیں "محفوظ خیرات" کے تصور کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے اور وہ ان معلومات کو رمضان سے پہلے علاقے کے شہریوں تک پہنچا سکیں۔

ہجرت کالونی یونین کمیٹی کے وائس چیرمین عبدل قیوم نے کہا کہ شہریوں کو ان تنظیموں یا افراد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی چاہیے جو ان کی رقم لے رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ملک میں عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنے کے لیے، پاکستانی مسلمانوں کو صرف اصلی خیراتی اداروں یا مدرسوں کو دینا چاہیے۔ منتخب شدہ نمائندوں کے طور پر ہم اپنے علاقے کے رہائشیوں کو اس بات کی شناخت کرنے میں مدد فراہم کریں گے کہ کون سے گروہ قانونی ہیں"۔

عسکریت پسندوں کو "مالی بحران" کا سامنا

سندھ کے محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کالعدم تنظیموں کی طرف سے عطیات جمع کرنے پر ملک بھر میں لگائی گئی پابندی ابھی قائم ہے۔ انہوں نے اپنا نام نہ بتانے کی درخواست کی کیونکہ انہیں ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

پاکستان فارورڈ نے مشاہدہ کیا ہے کہ ماضی میں، انتہاپسند گروہ کراچی میں رمضان کے دوران عطیات جمع کرنے کے کیمپ لگاتے تھے مگر گزشتہ تین سالوں سے ایسا کوئی کیمپ نہیں لگا ہے۔

"دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کو بند کرنا" نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے 20 نکات میں سے ایک ہے جو کہ حکومت کی طرف سے اپنائی جانے والی انسدادِ دشہت گردی کی پالیسی ہے جسے دسمبر 2014 میںآرمی پبلک اسکول پر طالبان کے ہلاکت خیز حملے کے بعداپنایا گیا تھا۔

سیکورٹی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس نے اور دوسرے اقدامات نے عسکریت پسندوں کی "بڑے دہشت گرادنہ حملوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کی صلاحیت" کو کمزور کر دیا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ کار رئیس احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پاکستانی حکام کی طرف سے طالبان کے گروہوں کو، عطیات جمع کرنے سے روکے جانے اور بیرونی ممالک سے ان کی آمدنی کے مرکزی ذریعہ کو کاٹے جانے سے انہیں شدید مالی بحران کا سامنا ہے"۔

یوسف زئی نے کہا کہ "حکومت کی طرف سے پابندی اور دوسرے اقدامات نے اصلی خیراتی اداروں کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ عطیات جمع کریں اور اس سے معاشرے کے غریب عناصر کو فائدہ حاصل ہو گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500