جرم و انصاف

تنازعات کے حل کی کونسلوں سے کے پی میں جرائم، تشدد میں کمی

جاوید خان

پشاور کے سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس ساجد خان (درمیان میں) 12 اپریل کو گلبہار میں تنازعات کے حل کی کونسل کی ایک میٹنگ کی سربراہی کر رہے ہیں جس میں اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ ]بہ شکریہ پشاور پولیس[

پشاور کے سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس ساجد خان (درمیان میں) 12 اپریل کو گلبہار میں تنازعات کے حل کی کونسل کی ایک میٹنگ کی سربراہی کر رہے ہیں جس میں اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ ]بہ شکریہ پشاور پولیس[

پشاور - تنازعات کے حل کی کونسلوں (ڈی آر سیز) نے خونی تنازعات کو ختم کرنے اور جھگڑا کرنے والے فریقین کو پرامن اور فوری حل تلاش کرنے پر رضامند کرنے سے خیبر پختونخواہ (کے پی) میں تشدد اور جرائم کو حل کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

پشاور کے سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس ساجد خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اب ہم لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بجائے اپنے تنازعات کو ڈی آر سی میں لے کر آئیں"۔

انہوں نے کہا کہ سالوں تک چلنے والے خونی تنازعات میں ملوث بہت سے لوگ مجرم بن گئے اور انہوں نے بعد میں دہشت گرد گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی جس سے کے پی اور ملک بھر میں تشدد کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا۔

خان نے کہا کہ "ڈی آر سیز نے معاشرے میں تشدد، مسلح ثقافت، جرائم اور دہشت گردی کو کو کم کرنے میں مدد کی ہے"۔

ڈی آر سیز پرامن حل ڈھونڈتی ہیں

پشاور میں تین ڈی آر سیز کام کرتی ہی: گلبہار (جسے جنوری 2014 میں قائم کیا گیا)، گلبرگ (مئی 2014) اور تیتارا (مارچ 2017)۔

حکام دیہی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے ایک میتھرا میں قائم کر رہے ہیں۔

کے پی پولیس کے مطابق، پشاور میں قائم تین ڈی آر سی نے 2014 سے اب تک 1,681 تنازعات کو حل کیا ہے۔

گلبہار ڈی آر سی نے1,111 تنازعات کو حل کیا ہے جس کے بعد گلبرگ نے567 اور تیتارا نے 3 کو حل کیا ہے۔

پولیس کے مطابق، سارے کے پی میں، ڈی آر سی نے نومبر سے مارچ 2016 تک 5,753 تنازعات کو حل کیا ہے۔ ڈان نے خبر دی ہے کہ ان واقعات میں سے 5,404 تنازعات پر سمجھوتہ ہو گیا جب کہ 313 کو دیگر فورمز میں بھیج دیا گیا۔

ڈی آر سی ، کے پی کے سابقہ انسپکٹر جنرل آف پولیس ناصر خان درانی کے ذہن کی پیداوار ہیں۔ اگست 2014 میں کے پی کی اسمبلی نے پولیس آرڈر میں ایک ترمیم منظور کی تھی جس سے ڈی آر سیز کو قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔

درانی نے مارچ میں ڈان کو بتایا تھا کہ "ڈی آر سیز طاقت ور جرگے (کونسلیں ) ہیں جس میں برادری کے غیرجانب دار اور بارسوخ ارکان کی رائے شامل ہوتی ہیں اور انہیں پولیس کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے"۔

کے پی کے نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین خان مسحود نے تمام ضلعی پولیس سربراہان کو حکم دیا ہے کہ وہ تنازعات کے متبادل حل کے بارے میں آگاہی کی مہم کا آغاز کریں۔

اس مہم کا مقصد عوام کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ ڈی آر سی، تشدد کا سہارا لیے بغیر، تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں ان کی کیسے مدد کر سکتی ہے۔ یہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے کہ وہ روایتی جرگوں، جنہیں قانونی اختیارات اور مدد حاصل نہیں ہے، کی بجائے ڈی آر سی سے مدد لیں۔

تشدد، جرائم میں کمی

صوابی ڈسٹرکٹ کے پولیس اہلکار صہیب اشرف نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ڈی آر سیز کے قیام کے بعد پرتشدد جرائم میں کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "صوابی میں قتل کے واقعات میں 22 فیصد کمی آئی ہے جب کہ اقدامِ قتل کے واقعات میں گزشتہ دو سالوں میں ڈی آر سی کی کوششوں کی وجہ سے 16 فیصد کمی آئی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ صوابی میں ڈی آر سیز کو 2015 میں ملنے والے 1,174 تنازعات میں سے ڈی آر سی نے994 کو حل کر دیا۔ باقی کے تنازعات کو یا تو واپس لے لیا گیا یا انہیں مزید اقدامات کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا گیا"۔

اشرف نے کہا کہ 2016 اور2017 میں ابھی تک صوابی ڈی آر سیز نے بالترتیب 1,253 اور 370 تنازعات کو حل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوابی کی ڈی آر سیز نے جن تنازعات کو سنبھالا ان میں خون کے تنازعات سے لے کر مالی، وراثت اور گھریلو جھگڑے تک شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈی آر سیز، اوسطا "تیس دن کے اندر" تنازعہ کو نپٹا دیتی ہے۔

غیر جانب درانہ، باعزت حل

بہت سے ایسے شہری جو ڈی آر سیز میں اپنی شکایات لے کر آئے ہیں نے نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

تیس سالہ مسعود احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میرا اپنے بھائیوں سے مالی تنازعہ تھا۔ میں نے گلبہار میں ڈی آر سی سے رابطہ کیا اور ایک مہینے کے اندر تنازعہ حل ہو گیا"۔

احمد نے دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ڈی آر سیز کو استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ "جج عام طور پر تعلیم یافتہ اور مثبت لوگ ہوتے ہیں جو کہ ان مسلح افراد سے کہیں بہتر ہیں جو عام طور پر جرگہ لگاتے ہیں جن کے پیچھے صرف ان کے ذاتی مقاصد ہوتے ہیں"۔

بزرگ اور پشاور کے سابق ناظم زاہد حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اچھی بات یہ ہے کہ ڈی آر سیز کے پاس قانونی مقام ہے اور ضرورت کے وقت انہیں مقامی پولیس کی مدد حاصل ہوتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ ڈی آر سی کے ارکان کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے اور ان کی اچھی ساکھ ہوتی ہے۔

حسین نے خاتون ارکان، جو ڈی آر سی سے شکایت کرنے والی خواتین کو زیادہ مطمین محسوس کروائیں گی، کے متعارف کروائے جانے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "ان میں بہت سے سابقہ جج، وکلا، پولیس اہلکار اور دوسرے افراد شامل ہیں جو دو گروہوں کے درمیان تنازعات کی حساسیت کو جانتے ہیں اور انہیں پرامن طریقے سے حل کرتے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

حکومتِ کے پی اور اس کے حکام کی جانب سے چھوٹے جرائم سے نمٹنے کے لیے بہترین موٴثر حکمتِ عملی۔

جواب

تنازعات کے حل کے لئیے یہ ایک نہایت مثبت نقطۂ نظر ہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو “بندوق بردار” جرگہ کی جگہ لینے اور گھر جا کر تنازعات حل کرنے کے لیئے آگے بڑھنا چاہیئے۔

جواب