سلامتی

امریکی بم کے بعد اففغانستان اور پاکستان میں آئی ایس آئی ایل کی گنتی شروع

جاوید محمود

14 اپریل 2017 کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع ارچن پر امریکی فوج کی جانب سے اس کے سب سے بڑے غیر جوہری بم سے حملہ کیے جانے کے ایک روز بعد، اس ضلع میں افغان سیکیورٹی فورسز 'دولتِ اسلامیۂ عراق و شام' (آئی ایس آئی ایل) کے خلاف ایک جاری رہنے والے آپریشن میں شریک ہیں۔ افغان حکام نے 14 اپریل کو امریکی فوج کے سب سے بڑے غیر جوہری بم کی تباہ کاری کی صلاحیت کے باوجودکوئی شہری موت واقع ہونے کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ہتھیار نے دولتِ اسلامیۂ عراق و شام کے درجنوں عسکریت پسند ہلاک کر دیے کیوں کہ اس نے پہاڑوں میں ان کی کمین گاہوں کو پاش پاش کر دیا۔]نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی[

14 اپریل 2017 کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع ارچن پر امریکی فوج کی جانب سے اس کے سب سے بڑے غیر جوہری بم سے حملہ کیے جانے کے ایک روز بعد، اس ضلع میں افغان سیکیورٹی فورسز 'دولتِ اسلامیۂ عراق و شام' (آئی ایس آئی ایل) کے خلاف ایک جاری رہنے والے آپریشن میں شریک ہیں۔ افغان حکام نے 14 اپریل کو امریکی فوج کے سب سے بڑے غیر جوہری بم کی تباہ کاری کی صلاحیت کے باوجودکوئی شہری موت واقع ہونے کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ہتھیار نے دولتِ اسلامیۂ عراق و شام کے درجنوں عسکریت پسند ہلاک کر دیے کیوں کہ اس نے پہاڑوں میں ان کی کمین گاہوں کو پاش پاش کر دیا۔]نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی[

اسلام آباد – پاکستانی سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی فوج کی جانب سے ننگر ہار، افغانستان میں ”دولتِ اسلامیۂ عراق و شام “ (آئی ایس آئی ایل) کی جانب سے جسیم بم گرایا جانا عسکریت پسندی کے لیے عدم برداشت کا ایک سخت اور واضح پیغام تھا۔

11 ٹن ٹی این ٹی جتنا دھماکا پیدا کرنے والا جی بی یو-43 ماسیو آرڈیننس ائیر بلاسٹ بم 13 اپریل کو پہلی مرتبہ جنگ میں استعمال کیا گیا۔

افغان حکام کے مطابق، جنہوں نے کسی بھی سولین موت کو خارج از امکان قرار دیا، یہ بم مشرقی افغانستان میں آئی ایس آئی ایل عسکریت پسندوں کے ایک زمین دوز احاطہ سے ٹکرایا، جس سے تقریباً 90 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔

افغان اور عسکری عہدیداران توقع کرتے ہیں کہ یہ بم حملہ افغانستان میں آئی ایس آئی ایل کی استعداد کو ختم کرے گا اور طالبان کی موسمِ بہار کی جارحانہ کاروائیوں سے قبل انہیں متنبہ بھی کرے گا۔

پاکستان کی جانب سے آئی ایس آئی ایل کے خلاف امریکی عزم کا خیر مقدم

پاکستانی انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے امریکہ-افغان مشترکہ عسکری آپریشن کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔

انہوں نے پیر (17 اپریل) کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ حملہ آئی ایس آئی ایل کے خلاف امریکی عزم کی عکاسی کرتا ہے، جس کا اولین ہدف نوجوان ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے سابق چیئرمین اکرم زکی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اگر اس حملے نے افغانستان میں آئی ایس آئی ایل کی کمین گاہوں کو نشانہ بنا یا ہے تو میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں مستحکم موجودگی رکھنے والی تمام دہشتگرد تنظیموں کی کمین گاہوں کو تباہ کیا جانا چاہیئے۔

اسلام آباد اساسی سیکیورٹی تھنک ٹینک سنٹر برائے تحقیق و علومِ سلامتی (سی آر ایس ایس) کے ایگزیکیوٹِیو ڈائریکٹر امتیاز گل نے کہا، ”افغانستان میں آئی ایس آئی ایل کے گڑھ پر حملہ ایک واضح اشارہ تھا کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں یا کہیں بھی عسکریت پسندی کو برداشت نہیں کریں گے۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”اس پیش رفت کے بعد آئی ایس آئی ایل، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور ان کے اتحادی دہشتگرد گروہوں کے لیے افغانستان میں مضبوطی سے قدم جمانا یا افغانستان اور پاکستان میں خونریزی کے مشن کو جاری رکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔“

ایک مشترکہ دشمن سے جنگ

گل نے کہا، ”اگر ہم افغانستان، پاکستان ، امریکہ اور چند دیگر ممالک کے بیانات کا جائزہ لیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی ایل ان کا مشترکہ دشمن ہے۔“ انہوں نے مزید کہا، ”آئی ایس آئی ایل پر امریکی حملہ افغانستان اور پاکستان میں کارگرِ عمل دہشتگرد گروہوں کو کچلنے کے لیے ایک مشترکہ حکمتِ عملی مرتب ہونے کے لیے راہ ہموار کرے گا]۔۔۔[۔“

انہوں نے کہا، ”افغانستان اور پاکستان افغانستان میں چھپے آئی آیس آئی ایل عسکریت پسندوں کا کلیدی ہدف ہیں اور آئی ایس آئی ایل کے خلاف امریکی کاروائی ان دونوں ممالک کی عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں براہِ راست معاونت تھی۔“

ایک سینیئر عسکری تجزیہ کار لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جاوید اشرف قاضی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”آئی ایس آئی ایل کی کمین گاہوں پر امریکی بمباری نے ]اس گروہ کی[ افغانستان میں مستحکم چھاؤنی رکھنے کی کوششوں کو تباہ کر دیا ہو گا، جو—افغانستان اور پاکستان—دونوں ممالک میں ان کی کاروائیوں کے مرکز کے طور پر کام آ سکتی تھی۔“

انہوں نے کہا، ”آئی ایس آئی ایل کا خراسان کا باب ابھی نومولود ہے،“ انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسند افغانستان میں اپنی جڑیں بچھانے کی کوشش کر رہے ہیں ”تاکہ اگر انہیں عراق اور شام سے نکال باہر کیا جائے تو وہ اس چھاؤنی میں منتقل ہو جائیں۔“

انہوں نے کہا کہ ایسا ہونے سے روکنے کے لیے اور خطہ میں عسکریت پسندی کو مکمل طور پر کچلنے کے لیے افٖغانستان اور پاکستان میں کارگرِ عمل تمام دہشتگرد گروہوں کو ہدف بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کی جانی چاہیئں۔

پاکستان میں عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکورٹی سیکریٹری بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا."آئی ایس آئی ایل 2015 میں افغانستان میں داخل ہوئی اور قتل وغارت کے اپنے ایجنڈے پر عمل شروع کر دیا".

انہوں نے بتایا، اسی سال، کچھ کالعدم عسکریت پسند تظیموں نے دہشت گرد گروپ کی بیعت کا اعلان کردیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کے لئے افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہم اتحادیوں کے ذریعے ایک انسداد دہشت گردی آپریشن شروع کیا جانا چاہیئے۔"

انہوں نے بتایا، "انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی کے لئے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اتحادیوں کی حکمت عملی بہت واضح ہونی چاہیئے۔"

شاہ نے بتایا، پاکستان میں آئی ایس آئی ایل اور اس کے حامیوں نے 2016 سے ملک میں کئی بڑے حملے کیے ہیں۔

13 مئی 2015، کو آئی ایس آئی ایل اور ٹی ٹی پی کے عناصر نے کراچی میں صفورہ گوٹھ کے قریب ایک بس پر حملے کے دوران اسماعیلی برادری کے 45 افراد کو قتل کردیا تھا۔ یہ پہلا بڑا حملہ تھا جس کی ذمہ داری پاکستان میں دو گروہوں نے قبول کی تھی۔

سی آرایس ایس کی 22 مارچ 2017 کو شائع سالانہ سیکورٹی رپورٹ کے مطابق 2016 میں آئی ایس آئی ایل نے مختلف حملوں میں 203 پاکستانیوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

سی آرایس ایس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی، ٹی ٹی پی کی ذیلی تنظیم جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی العالمی اور لشکر اسلامی آئی ایس آئی ایل کی معاونت سے کچھ حملے کرچکے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500