دہشتگردی

پاکستان میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈاکٹروں، وکلاء کی ٹارگٹ کلنگز کی روک تھام

از جاوید محمود

مسلح پولیس اہلکار 15 اپریل 2017 کو اسلام آباد ضلعی عدالت میں ایک سینیئر وکیل کی تلاشی لیتے ہوئے۔ ججوں، وکلاء اور عوام الناس کے تحفظ کے لیے اسلام آباد پولیس نے ضلعی عدالتوں میں کئی گیٹ لگائے ہیں جن پر مسلح اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ [جاوید محمود]

مسلح پولیس اہلکار 15 اپریل 2017 کو اسلام آباد ضلعی عدالت میں ایک سینیئر وکیل کی تلاشی لیتے ہوئے۔ ججوں، وکلاء اور عوام الناس کے تحفظ کے لیے اسلام آباد پولیس نے ضلعی عدالتوں میں کئی گیٹ لگائے ہیں جن پر مسلح اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ [جاوید محمود]

اسلام آباد -- بہت مشکلوں سے کی گئی پیش رفت جو پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے حالیہ برسوں میں عسکریت پسندی کے خلاف کی ہے اس نے ملک کے وکلاء اور ڈاکٹروں کو بھی محفوظ تر بنانے میں مدد کی ہے۔

کئی وجوہات، جیسے کہ فرقہ واریت اور دہشت گردی کی حمایت نہ کرنے والے ممتاز شہریوں کو ختم کرنے کی خواہش کی بناء پر اکثر نشانہ بننے والے دو شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد برسوں سے ایک ہدف بن کر جی رہے ہیں۔

تعداد میں کمی

ساؤتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل کے مطابق، سنہ 2007 سے لے کر اس سال 2 اپریل تک، پورے پاکستان میں تقریباً 50 ڈاکٹر اور 54 وکلاء ٹارگٹ کلنگز میں ہلاک ہوئے۔ سنہ 2014 میں، 12 ڈاکٹر اور 13 وکلاء مارے گئے تھے۔

سائٹ کے مطابق، حالیہ ترین ایسی واردات میں، 13 اپریل کو کراچی میں ایک ڈاکٹر کو اس کے گھر کے باہر گولی مار دی گئی تھی۔ ڈان کی اطلاع کے مطابق ایک معالجِ حیوانات کو 7 اپریل کو لاہور میں گولی مار دی گئی تھی۔

تاہم حالیہ برسوں میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک یا گرفتار ہونے یا فرار ہو جانے پر مجبور ہو جانے کی وجہ سے یہ خوفناک تعداد کم ہو گئی ہے۔ پورے سنہ 2016 اور سنہ 2017 میں ابھی تک، ایک وکیل کو قتل کیا گیا (مارچ میں خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں)۔ لاہور کے معالجِ حیوانات اور کراچی کے معالج اپنے پیشوں میں پہلے افراد تھے جنہیں پورے سنہ 2016 اور سنہ 2017 میں ابھی تک ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا۔

مندرجہ بالا تعداد میں کوئٹہ کے ہسپتال میں خودکش بم دھماکہ شامل نہیں ہے جس میں گزشتہ اگست میں 50 سے زائد وکلاء جاں بحق ہوئے تھے۔

تجزیہ کاروں نے کہا کہ اس تعداد میں کمی سنہ 2015 میں واقع ہونا شروع ہوئی، جب فوج نے شمالی وزیرستان میں انسدادِ دہشت گردی کا آپریشن ضربِ عضب جاری رکھا، جو کہ جون 2014 میں شروع ہوا تھا، اور جبکہ حکام نے پورے ملک، خصوصاً کراچی میں مخبری پر مبنی کارروائیاں (آئی بی اوز) جاری رکھیں۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان سرفراز حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اس بات کو ایسے دیکھیں کہ سیکیورٹی فورسز نے "ان دہشت گردوں اور مجرموں کو قتل کر دیا جو ڈاکٹروں اور وکلاء کو قتل کرتے تھے۔"

کئی طرح کے اقدامات

سیکیورٹی فورسز نے دیگر اقدامات بھی کیے، جیسے کہ عدالتوں، ہسپتالوں، میڈیا ہاؤسز اور دیگر اہم مقامات پر مسلح اہلکاروں کی تعیناتی۔

سرفراز حسین نے کہا کہ علاوہ ازیں، وزارتِ داخلہ نے دہشت گردوں کے منصوبوں کو باقاعدگی سے ناکام بنانے کے لیے صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔

دریں اثناء، ماضی میں دہشت گردوں کی غالب اکثریت والے شمالی وزیرستان میں طویل عرصے سے ہو رہے آپریشن، ضربِ عضب کے ثمرات جاری ہیں۔

ایک دفاعی تجزیہ کار اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں مہمان استاد افشین ذیشان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "شمالی وزیرستان میں کامیاب آپریشن نے ۔۔۔ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں، نیٹ ورکس اور بنیادی ڈھانچے کو [کو تباہ کر دیا]۔"

عوام نے دہشت گردوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ان کی تباہی میں حصہ ڈالا ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت زیادہ قوت اور وابستگی جس کا مظاہرہ فوج نے اپنے حملوں میں کیا ہے اس نے باغیوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا، "لوگوں کو احساس ہوا کہ انتہاپسند جہاد کے نظریئے کو مسخ کر رہے ہیں۔ یہ اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے کے لیے خودکش حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔"

انہوں نے کہا کہ آپریشن ردالفساد، جو فروری میں شروع ہوا تھا، اور پورے ملک میں مزید آئی بی اوز امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا جاری رکھیں گے۔

کراچی کے فساد میں کمی

کراچی کے مقامی دفاعی تجزیہ کار فوج کے کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کراچی میں، جہاں مختلف برادریاں ساتھ ساتھ رہتی ہیں، "ڈاکٹروں اور وکلاء کی زیادہ تر ٹارگٹ کلنگز فرقہ وارانہ تھیں، جن میں قاتلوں کا کچھ پتہ نہیں۔"

کراچی میں آئی بی اوز نے حالیہ برسوں میں ڈاکٹروں اور وکلاء کے قتل کی وارداتوں کو تیزی سے کم کیا ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مئی 2010 کے بعد، کراچی کے لگ بھگ 30 ڈاکٹروں کو قتل کیا گیا۔

نیم فوجی رینجرز نے ستمبر 2013 میں پورے شہر میں دہشت گردوں اور مجرم گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کا آغاز کیا، جو آج بھی جاری ہے۔

بٹ نے کہا کہ سخت محنت کے ان تمام برسوں کے بعد، حکام نے پورے پاکستان میں ٹارگٹ کلرز اور ان کے ساتھیوں کی اکثریت کو گرفتار (یا ہلاک) کیا ہے۔

اگست میں کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکے، جس میں صوبہ بلوچستان کی قانونی برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، تاہم یہ کام اپنے اختتام سے ابھی بہت دور ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500