جرم و انصاف

کے پی کے نئے پولیس چیف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عہد کیا

جاوید خان

خیبر پختونخواہ کے نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین خان محسود 3 اپریل کو پشاور میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے پولیس فورس کے اندر بدعنوانی کو کسی صورت برداشت نہ کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تیز کرنے کا عہد کیا۔ ]جاوید خان[

خیبر پختونخواہ کے نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین خان محسود 3 اپریل کو پشاور میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ انہوں نے پولیس فورس کے اندر بدعنوانی کو کسی صورت برداشت نہ کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تیز کرنے کا عہد کیا۔ ]جاوید خان[

پشاور - خیبر پختونخواہ (کے پی) کے نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) صلاح الدین محسود نے عہد کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جوش و جذبے سے جاری رکھا جائے گا۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے 30 مارچ کو محسود کو تعینات کیا جو شورش زدہ صوبے میں پولیس فورس کی سربراہی کریں گے۔ وہ سابقہ آئی جی پی ناصر خان درانی کی جگہ لے رہے ہیں جو 16 مارچ کو ملازمت سے ریٹائر ہو گئے تھے۔

درانی کو کے پی پولیس میں اصلاحات کرنے اور کے پی مں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں مدد فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

درانی، جنہوں نے ساڑھے تین سال تک پولیس فورس کی سربراہی کی ہے، پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "صلاح الدین محسود ایک ایسے افسر ہیں جن میں کسی بھی مشکل صورتِ حال میں کے پی پولیس کی قیادت کرنے کی تمام خوبیاں موجود ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "وہ ایک باصلاحیت افسر ہیں جو ہر قسم کے حالات میں کے پی پولیس کی بہتر طریقے سے قیادت کریں گے"۔

محسود جو کہ اکیسویں گریڈ کے افسر ہیں، نے اس سے پہلے کے پی کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبہ کی دو سال سے زیادہ کے عرصے تک قیادت کی ہے اور 1989 سے پولیس سروس آف پاکستان میں خدمات سر انجام دی ہیں.

محسود نے تین اپریل کو آئی جی پی کے طور پر اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں جو کہ ان کے دفتر میں منعقد ہوئی، پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کے پی پولیس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ دس سالوں کے دوران اپنے 1,500 اہلکاروں کی قربانی دی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ فورس دہشت گردی کے خلاف زیادہ پیشہ ورانہ جوش سے لڑنے اور صوبہ اور ملک میں امن کو بحال کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "پولیس نے گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردوں کے خلاف ان گنت کامیابیاں حاصل کی ہیں"۔

محسود جو دہشت گردی کے ہاتھوں دو بچوں کو کھونے کے باعث اس دکھ کو ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہا کہ "فوج اور فرنٹئر کور نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے مہمات سر انجام دی ہیں جب کہ پولیس کے پی میں اگلی صفوں کی فورس کے طور پر لڑتی رہی ہے"۔

دسمبر 1995 میں پشاور میں ہونے والے بم دھماکے میں 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں ان کے دو بیٹے بھی شامل تھے۔

انہوں نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں عہد کیا کہ نئے منظور شدہ کے پی پولیس ایکٹ 2017 کو اس کی مکمل روح کے ساتھ نافذ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ "جھگڑوں کو حل کرنے کی کونسلیں، پولیس کی امدادی ہاٹ لائن، پولیس رسائی کی سروس، نئے بنائے جانے والے اسکولوں اور سیفٹی کمیشن کو مزید مضبوط بنایا جائے گا"۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ وہ بدعنوان افسران کو سزا دینے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو اچھی کارکردگی دکھائیں گے انہیں پوری طرح انعام دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ "فورس کو ان اہلکاروں کو اہلِ خاندان کا خصوصی دھیان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جو ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہوئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور عوام کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر افسران کو سخت ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ پولیس اسٹیشن میں داخل ہونے والے یا کسی چیک پوائنٹ سے گزرنے والے ہر آدمی کی عزت کریں۔

محسود نے کہا کہ "پولیس فورس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومت کے دیگر شعبوں کے ساتھ ہم آہنگی کو بہتر بنایا جائے گا"۔

محسود ایک "صاف اور پر عزم" افسر ہیں

پاکستان فارورڈ سے بات کرنے والے سینئر پولیس افسران اور سیکورٹی کے تجزیہ نگاروں نے کہا کہ نئے پولیس چیف اپنے سے پہلے کے سربراہ کی پالیسیوں اور پولیس کی اصلاحات کے عزم کو جاری رکھیں گے۔

پشاور کے لیے کیپیٹل پولیس افسر محمد طاہر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "نئے پولیس چیف کے ساتھ جرائم اور دہشت گردی کا تجزیہ، مشہور اور دوسرے کیسوں کا کھوج لگانے اور انہیں حل کرنا بہتر ہو جائے گا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ محسود "صاف اور پر عزم" افسر کے طور پر مشہور ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے جرائم اور دہشت گردی کے صحافیوں کے فورم کے جنرل سیکریٹری، قیصر خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "محسود فعال طریقے سے کے پی کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبہ کی سربراہی کر رہے ہیں اور انہیں اس بات کا اچھی طرح پتہ ہے کہ فورس کو امن کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے"۔

خان نے کہا کہ نئے آئی جی پی متوقع طور پر پولیس کی اصلاحات کو جاری رکھیں ہے جنہوں نے عوام کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ کسی شکایت کی صورت میں پولیس کی اعلی انتظامیہ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

پشاور کے رہائشی، ذوالفقار احمد نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ نئے آئی جی پی پولیس کے اندر بدعنوانی پر کریک ڈاون جاری رکھیں گے اور تھانوں میں عوام سے ہونے والے والے سلوک کو بہتر بنائیں گے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "گزشتہ چند سالوں کے دوران پولیس کا رویہ بہت بہتر ہوا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ نئی انتظامیہ اسے مزید بہتر بنائے گی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

bohat hi acha hai v good

جواب

اچھا

جواب