رواداری

پشاور کے نوجوان اتن برائے امن کے لیے اکٹھے ہوئے

جاوید خان

ہر عمر کے آدمی، 7 اپریل کو پشاور میں اتن برائے امن میں اجتماعی طور پر فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں تاکہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ پشتون پرامن اور موسیقی سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور ان کا دہشت گردی اور انتہاپسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ]بہ شکریہ اتن برائے امن کے منتظمین[

ہر عمر کے آدمی، 7 اپریل کو پشاور میں اتن برائے امن میں اجتماعی طور پر فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں تاکہ دنیا کو یہ بتایا جا سکے کہ پشتون پرامن اور موسیقی سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور ان کا دہشت گردی اور انتہاپسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ]بہ شکریہ اتن برائے امن کے منتظمین[

پشاور - پشاور میں پشتون نوجوانوں نے جمعہ (7 اپریل) کو عسکریت پسندی اور تشدد کے خلاف اتحاد دکھانے کے لیے باغِ ناران پبلک پارک میں ایک بہت بڑے "اتن برائے امن" کا انعقاد کیا۔

جب تقریبا 500 افراد جن کا تعلق پشاور بھر سے تھا حیات آباد کے علاقے میں وسیع و عریض باغ میں اتن میں شامل ہونے یا اسے دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو جشن کا سا ماحول تھا۔ یہ روایتی پشتون رقص مرد خوشی کے مواقع پر کرتے ہیں۔

فنکاروں نے ڈھول بجایا جبکہ ہر عمر کے مردوں نے ایک دائرے میں رقص کیا۔ بہت سی خواتین اتن کی حوصلہ افزائی کرنے اور امن کے پیغام کی حمایت کے لیے آئی تھیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، کوئٹہ، قندھار، پشاور اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پشتون نوجوانوں کے ایک گروہ نے اس تقریب کو، لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں 21 مارچ کو اتن کے مظاہرے کے دوران طلباء کے دو گروہوں میں ہونے والی متشدد جھڑپ کے ردعمل میں منعقد کیا تھا۔

پشاور میں 7 اپریل کو مرد اتن برائے امن کے لیے اجتماعی طور پر فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ اتن برائے امن کے منتظمین[

پشاور میں 7 اپریل کو مرد اتن برائے امن کے لیے اجتماعی طور پر فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ]بہ شکریہ اتن برائے امن کے منتظمین[

پشاور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور تقریب کے منتظم طارق افغان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم دنیا کو امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں اور اسے بتانا چاہتے ہیں کہ ہماری ثقافت امن کی ثقافت ہے اور پشتونوالی (پشتونوں کا اخلاقی ضابطہ) میں انتہاپسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے"۔

گزشتہ ماہ پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی جھڑپ کا حوالہ دیتے ہوئے افغان نے کہا کہ یہ پشتون ثقافت پر ایک حملہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ "اتن انتہائی قدیم زمانوں سے ہماری ثقافت کا حصہ رہا ہے اور کوئی بھی ہمیں اس کا مظاہرہ کرنے سے نہیں روک سکتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر اتن برائے امن کو منعقد کرنے کے پیچھے بنیادی خیال یہ تھا کہ پشتون ثقافت کو فروغ دیا جائے اور نوجوانوں میں موسیقی اور رقص کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے۔

افغان نے کہا کہ "ہم نے پولیس کے ذریعے مناسب سیکورٹی کا انتظام کیا تھا اور ہمارے آدمیوں نے اس تقریب کے دوران امن کو یقینی بنایا جسے انتہاپسندی کی مخالفت میں منعقد کیا گیا تھا"۔

خوشی کا ایک دن

باغِ ناران میں بہت سے تماشائیوں اور شرکاء نے کہا کہ اس تقریب سے ان کے چہروں پر مسکان آ گئی ہے۔

ایک مقامی شہری، یاسر حسین جو اس تقریب کو دیکھ رہے تھے، نے کہا کہ "یہ ایک اچھی سرگرمی ہے اور اسے باقاعدگی سے منعقد کرنے کی ضرورت ہے"۔

حسین نے کہا کہ انہوں نے اس تقریب سے لطف اٹھایا ہے اگرچہ انہوں نے رقاصوں پر کچھ تنقید بھی کی۔ انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "رقص بہت زیادہ منظم نہیں تھا اور اتنے اہم موقع کے لیے اسے زیادہ بہتر طریقے سے پیش کیا جا سکتا تھا"۔

تاہم، دوسرے لوگوں نے کہا کہ یہ تقریب اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت اہم تھی کہ اس میں دنیا کو امن کا پیغام دیا گیا تھا۔

پشاور کے دانشور اور معلم ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ "اتن پشتونوں کی اجتماعی جمالیات کا اظہار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دنیا بھر میں، پشتونوں کو زیادہ تر بندوق اٹھائے ہوئے لوگوں کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے جو زندگی کی خوبصورتی کے کسی بھی جشن کے خلاف ہیں۔ اتن برائے امن یقینی طور پر پشتونوں کے بارے میں خیالات کو بہتر بنائے گا"۔

انتہاپسندی کے خلاف مزاحمت

پشاور میں تقریب منعقد کرنے والوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے اسلام آباد میں ہفتہ (8 اپریل) کو ایک اور بڑا اتن منعقد کیا گیا۔ اس سے مماثل تقریبات حال ہی میں کراچی، لندن اور دوسرے شہروں میں منعقد ہوئی ہیں تاکہ امن کے پیغام کو پھیلایا جا سکے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایمل خٹک جو کہ سماجی کارکن اور سیاست دان اور پشتو زبان کے مشہور شاعر محمد اجمل خٹک کے بیٹے ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پشاور میں اتن برائے امن پشتون نوجوانوں کی طرف سے ایک اچھی کوشش تھا اور انہوں نے انتہاپسندی کے خلاف اپنی مزاحمت کو بہت پرامن اور بھرپور طریقے سے ظاہر کیا"۔

پنجاب یونیورسٹی میں 21 مارچ کو ہونے والے واقعہ کے حوالے سے خٹک نے کہا کہ اتن انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے میں ایک بہت طاقت ور ہتھیار اور غیر متشدد مزاحمت کی بہترین قسم کے طور پر ابھر رہا ہے"۔

خٹک نے کہا کہ "ہم نے انتہاپسندوں کی غنڈا گردی کے خلاف احتجاج اور اس کی مذمت کے لیے ملک بھر میں اتن کی تقریبات منعقد کیے جانے کا مشاہدہ کیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن کی تشہیر کے لیے ثقافت سب سے بہترین ہتھیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پشاور میں اتن نے دکھایا ہے کہ پشتون ثقافت میں انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے اور اس وقت پھیلی ہوئی تشدد کی ثقافت کا مقابلہ کرنے کی بہت وسیع صلاحیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے دیکھا کہ کیسے اتن برائے امن ہمارے معاشرے میں اتحاد، تنوع اور ہم آہنگی کی علامت ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اسلامُ علیکم! پشتونوں کے قومی رقص و موسیقی کی بحالی اور احیاء کے لیے ان روایتی اور تاریخی تقاریب کے انعقاد پر آپ کا بہت شکریہ۔ ہم اس وقت تک بتدریج اپنی تحریک کو سرگرم کر رہے ہیں جب تک ہم ان لوگوں سے آزادی نہ حاصل کر لیں جنہوں نے ہماری رسوم اور ثقافت پر حملہ کیا۔ انشااللہ ہم اپنی نئی نسل کے لیے آزاد پشتونستان تشکیل دیں گے۔ اتڼ ہماری بہادری، آزادی اور قومی ثقافت کی علامت ہے۔ "میں نے افغان کے غرور کے تحفظ کے لیے تلوار اٹھا لی ہے، میں خوشحال خٹک ہوں، دور کا باعزت آدمی"۔ ہماری زمین، ہماری حکمرانی

جواب