دہشتگردی

پاکستانیوں کی جانب سے پارا چنار میں طالبان کے 'سفاکانہ' بم دھماکے کی مذمت

اے ایف پی اور سٹاف

31 مارچ کو پارا چنار، کرم ایجنسی میں پاکستانی کار بم دھماکے کے مقام پر جمع ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں ایک مارکیٹ میں کم از کم 22 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ [اے ایف پی]

31 مارچ کو پارا چنار، کرم ایجنسی میں پاکستانی کار بم دھماکے کے مقام پر جمع ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں ایک مارکیٹ میں کم از کم 22 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ [اے ایف پی]

پارا چنار -- پورے پاکستان میں لوگ کار بم دھماکے کی شدید مذمت کر رہے ہیں جو جمعہ (31 مارچ) کو پاکستان کی قبائلی پٹی کے شیعہ اکثریتی علاقے میں ہوا، جس میں 22 افراد جاں بحق اور 57 زخمی ہوئے۔

دھماکے میں بچ جانے والوں نے بتایا کہ کرم ایجنسی کے دارالخلافہ پارا چنار میں ایک مصروف مارکیٹ میں ایک 'بڑا دھماکہ' سننے کے بعد وہ دکانوں میں چھپ گئے، پھر گردوغبار میں سے لڑکھڑاتے ہوئے نکلے اور نعشوں کو پھلانگتے ہوئے زخمیوں کو تلاش کرنے لگے۔

دھماکہ پورے پاکستان میں فروری کے مہینے میں دہشت گردوں کی جانب سے برپا کردہ فساد کی لہر جس میں 130 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، کے بعد ہوا ہے.

دکاندار سردار حسین نے اے ایف پی کو بتایا، "لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے ۔۔۔ جب میں نے مڑ کر دیکھا تو ہر شے گردوغبار سے اٹی ہوئی تھی۔"

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد کو "خون اور گردوغبار میں لت پت" دیکھا، جبکہ دو گاہک فرش پر مردہ پڑے ہوئے تھے۔

ایک مقامی باشندے محمد علی، جو دھماکے کے وقت ایک دکان میں تھے، نے اے ایف پی کو بتایا، "میں نے ایک بہت زور دار دھماکہ سنا اور لوگ چیخ رہے تھے۔"

"ہم نے دروازے بند کر لیے ۔۔۔ کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ کہ دوسرا دھماکہ بھی ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں کچھ دیر کے لیے گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی اور لوگ چیخ و پکار کر رہے تھے، اس لیے ہم باہر نکل آئے۔"

یہ بتاتے ہوئے کہ جب سیکیورٹی فورسز پہنچیں تو آس پاس کے لوگوں کو جو بھی گاڑی مل رہی تھی وہ اس میں زخمیوں کو لے جا رہے تھے، علی نے کہا کہ وہ بڑی تیزی سے جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔

مقامی سرکاری ہسپتال کی ایک سرجن، معین بیگم نے اے ایف پی کو بتایا، "ہمارے ہاں یہاں ہسپتال میں 22 لاشیں اور 57 زخمی ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔"

پارا چنار کے نائب پولیٹیکل ایجنٹ شاہد علی خان نے تصدیق کی کہ دھماکہ ایک کام بم تھا۔

دہشت گردوں کی 'سفاکی' کی مذمت

وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے یہ کہتے ہوئے دھماکے کی مذمت کی کہ پاکستان میں دہشت گردی کا "مکمل خاتمہ" کرنا ایک "فرض" ہے۔ انہوں نے مقامی حکام کے لیے امداد کا حکم دیا۔

پشاور کے مقامی دینی عالم مفتی کریم حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بغیر وجہ کے لوگوں کو ہلاک یا زخمی کرنا تمام مذاہب کے خلاف ہے۔ دہشت گرد مقدس دن، جمعہ کے روز دانستہ دہشت گردی کرتے ہیں۔"

حسین نے خواتین اور بچوں کو ہدف بنانے میں "سفاکی" کے لیے دہشت گردوں کو ملامت کی۔

پشاور میں ایک امام مسجد مولانا جوہر علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ دہشت گرد اپنی دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے لیے غلط طور پر اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں، جو کہ "ان کی طرف سے کیا جانے والا گناہِ کبیرہ ہے۔ خدا دہشت گردوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔"

انہوں نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو "دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیئے اور ان کی طرف سے گھڑے ہوئے اسلام کے اطلاق کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہیئے۔"

سیکیورٹی کی 'ناکامی' پر تنقید

اے ایف پی کو بھیجے گئے ایک پیغام میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دھڑے جماعت الاحرار نے دھماکے کے فوراً بعد ہی ذمہ داری قبول کر لی۔

یہ گروہ حملوں کی اس لہر کا ایک حصہ تھا جس نے فروری میں ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، بشمول لاہور میں ایک خودکش بم دھماکہ جس میں 14 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

فروری میں ہونے والے حملوں میں صوبہ سندھ میں ایک صوفی بزرگ کے مزار پر خودکش بم دھماکہ بھی شامل تھا جس میں 90 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام' (داعش) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

حملوں میں حالیہ شدت نے اس خوش خیالی کو نقصان پہنچایا ہے جو دہشت گردی کے خلاف ملک کی بھرپور کامیابیوں کے بعد بظاہر پیدا ہوئی تھی۔

پاکستانی فوج نے سخت کارروائی کا آغاز کیا تھا اور افغانستان کے ساتھ سرحد کو عارضی طور پر بند کر دیا تھا، جس پر الزام تھا کہ یہاں سے وہ دہشت گرد داخل ہوئے تھے جنہوں نے حملے کیے تھے۔

تاہم، حکام اور شہریوں نے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی علامت کے طور پر 20 مارچ کو پاک افغان سرحد کے دوبارہ کھلنے کا خیر مقدم کیا۔

سیاستدانوں نے دہشت گردی کے الزامات پر عام شہریوں پر مقدمات چلانے کے لیے سخت فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے قانون سازی کو وسیع کرنے کے لیے ووٹ بھی دیا۔

مشتعل شیعہ رہنماؤں اور مقامی باشندوں نے جمعہ کے روز ہونے والے دھماکے کے فوراً بعد پارا چنار میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اس ناکامی پر سیکیورٹی فورسز کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔

ایک شیعہ سیاسی تنظیم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے اسلام آباد میں اے ایف پی کو بتایا، "دہشت گردوں کا درجنوں چیک پوسٹوں کو عبور کرنا اور دھماکے کرنا دفاعی اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان لگاتا ہے۔"

پارا چنار پاکستان میں سنہ 2017 میں دہشت گردوں کے پہلے بڑے حملے کا مقام تھا، جنوری میں ایک اور مارکیٹ میں بم دھماکہ جس میں 24 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔

[اشفاق یوسفزئی نے پشاور سے اس رپورٹ میں حصہ لیا.]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500