دہشتگردی

مہان ایئر: ایئر لائن مشرقِ وسطی میں ایران کے حمایت یافتہ تنازعات کی سہولت کار ہے

قاہرہ سے ولید ابو خیر

مہان ایئر لائن کا جہاز دمشق ایرپورٹ پر ٹارمیک پر کھڑا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اس نجی ملکیتی ہوائی کمپنی کو استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطی کے مختلف جنگی علاقوں میں ہتھیار، فوجی سامان اور غیر ملکی جنگجوؤں لے جا رہا ہے۔ ]تصویر بہ شکریہ محمد ال عبداللہ[

مہان ایئر لائن کا جہاز دمشق ایرپورٹ پر ٹارمیک پر کھڑا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران اس نجی ملکیتی ہوائی کمپنی کو استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطی کے مختلف جنگی علاقوں میں ہتھیار، فوجی سامان اور غیر ملکی جنگجوؤں لے جا رہا ہے۔ ]تصویر بہ شکریہ محمد ال عبداللہ[

ماہرین نے المشرق کو بتایا ہے کہ ایران مسافروں کو لے جانے والی ہوائی کمپنی مہان ایئر کو ہتھیاروں، فوجی سامان اور غیر ملکی جنگجوؤں کو مشرق وسطی کے مختلف جنگ زدہ علاقوں میں لے جانے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔

حزب اللہ کے قریبی ذرائع کے مطابق، اس ہوائی کمپنی کو، لبنانی اور شامی پارٹی ارکان کو فوجی تربیتی کورس لینے کے لیے ایران لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

صلاح منصور، جنہوں نے اپنی حفاظت کے باعث فرضی نام استعمال کیا ہے، کا تعلق حزب اللہ کے ایک سینئر اہلکار سے ہے اور وہ گروپ سے الگ ہونے سے پہلے، لبنان کی بقا وادی میں پارٹی کی قیادت کے قریب رہے ہیں۔

انہوں نے المشرق کو بتایا کہ مہان ایئر اور اس سے پہلے سرکاری ملکیتی ہوائی کمپنی ایران ائیر، کو شام میں کام کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے اور لگتا ہے کہ شامی حکومت کی فورسز کو ان ہوائی کمپنیوں پر کوئی اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ "فوج یا ملیشیا عناصر کو لے جانے والی گاڑیاں ایرپورٹ کے کیمپس میں براہ راست داخل ہو جاتی ہیں اور وہ کسٹم، پاسپورٹ یا کسی اور چیک پوسٹ پر نہیں رکتی"۔

منصور نے کہا کہ انہوں نے دمشق اور ایئرلائن کے ایران میں گڑھ، ابادان ایئرپورٹ کے درمیان ایک موقعہ پر سفر کیا تھا جب وہ حزب اللہ کے رکن تھے اور اس کے علاوہ وہ ایرانی لڑاکوں کے قافلوں کو ایئرپورٹ تک لے کر اور انہیں وہاں سے لے کر آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "زیادہ تر ہتھیاروں اور گولہ بارود کو ایران ایئر اور مہان ایئر کے جہازوں سے ایئرپورٹ کے ہینگرز پر اتار لیا جاتا تھا اور انہیں پھر جماعت (حزب اللہ) سے تعلق رکھنے والے ٹرکوں میں لادا جاتا تھا اور پھر لبنان بھیج دیا جاتا تھا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہتھیاروں اور گولہ بارود کو جہاز سے براہ راست ٹرکوں میں صرف چند بار ہی لادا گیا کیونکہ اس منتقلی کو عام طور پر انتہائی زیادہ رازداری سے انجام دیا جاتا تھا"۔

آئی آر جی سی کا ایک ذیلی ادارہ

مڈل ایسٹ سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریجک اسٹڈیز کے محقق فطحی ال سید، جو ایرانی امور میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں، نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کی مختلف خبروں کے مطابق، مہان ایئر ایران کی اسلامی پاسداران انقلاب کور (آئی آر جی سی) کا ذیلی ادارہ ہے۔

انہوں نے المشرق کو بتایا کہ ایئر لائن کو "ہتھیاروں، فوجی سامان اور عناصر کو ایران سے شام اور یمن لے جانے کے لیے استعمال کیا گیا جنہیں وہاں ہونے والی جنگوں میں استعمال کیا گیا"۔

انہوں نے کہا کہ کچھ خبروں میں اس ایئر لائن کو آئی آر جی سی اور القدس فورس، جو کہ شام، یمن اور لبنان میں اس کی فوجی شاخ ہے، کی مرکزی ہوائی کمپنی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی کا کمانڈر حامد عربنجاد کمپنی کے چیرمین کے طور پر خدمات سرانجام دیتا ہے جب کہ آئی آر جی سی کا ایک اور کمانڈر، حامد اسلانی ایک سینئرعہدہ رکھتا ہے۔

ال سید نے کہا کہ ایران اور دمشق کے درمیان غیر قانونی پروازوں کا پہلی بار مشاہدہ 2011 میں، شام کے تنازعہ کے بھڑک اٹھنے کے وقت کے قریب کیا گیا اور ان کی تعداد میں گزشتہ چند سالوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور ایسی ہی مماثل پروازیں یمن کے لیے بھی شروع ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے اس کمپنی کے ساتھ لین دین پر مکمل پابندی لگا دی ہے اور مملکت نے مہان ایئر کی سعودی عرب جانے والی پروازوں کو اپریل 2016 میں روک دیا تھا۔

امریکہ کے محکمہ خزانہ نے بھی اس کمپنی پر آئی آر جی سی کی القدس فورس کی مدد کرنے پر پابندیاں لگائی ہیں۔

ہتھیاروں کی اسمگلنگ کی مہمات

ال سید نے کہا کہ "آئی آر جی سی کا یونٹ 190 دوسرے ممالک جیسے کہ سوڈان،یمن، شام اور لبنان کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں خصوصی مہارت رکھتا ہے اور یہ یونٹ زمین، سمندر اور مہان ایئر کے ذریعے سامان کی ترسیل کے لیے تمام میسر ذرائع کو استعمال کرتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی کی اس خفیہ شاخ کی نگرانی ایرانی تاجر اور القدس فورس کے سینئر اہلکار بہنام شہریاری کرتے ہیں اور ہتھیاروں کا کچھ لین دین بہنام شہریاری کی ٹریڈنگ کپنی کے پردے کے پیچھے بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ"اس سے مماثل ایک یونٹ جو کہ یونٹ 198 کہلاتا ہے، نے جنگ زدہ علاقوں تک ایئر ٹرانسپورٹ کی پروازوں اور زیادہ تر آئی آر جی سی کے افسران کو مکمل رازداری سے منتقل کرنے کا کام سنبھالا ہے۔ یہ دوسرا یونٹ عام طور پر یونٹ 190 کی طرف سے انجام دی جانے والی مہمات کے تحفظ اور حفاظت کو سنبھالتا ہے"۔

السید نے متنبہ کیا کہ "ایران کو شام کی اجنہت ال شام کمپنی کے ساتھ کمرشل معاہدوں کی وجہ سے شامی کمپنی کے جہازوں کے بیڑے کو مشکوک ہوائی نقل و حمل کی مہمات میں استعمال کرنے کا اختیار مل گیا ہے"۔

اسیوط یونیورسٹی کے پروفیسر خیرالدین عبدل متال جو کہ عالمی قانون کے ماہر ہیں نے کہا کہ سویلین اور سرکاری جہازوں کو فوجی سامان اور مسلح عناصر کی نقل و حرکت کے لیے استعمال کرنے سے، ایران نے ممکنہ طور پر اقوامِ متحدہ کی تین قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے جن کا تعلق ہتھیاروں کی برآمد سے ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ سویلین جہازوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے ایران نے "بین الاقوامی ایئر نیویگیشن اور سول ہوا بازی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ مہان ایئرز کا آئی آر جی سی کے ساتھ ملوث ہونا "خصوصی طور پر جنگ زدہ علاقوں تک ہتھیاروں اور جنگجوؤں کو لے جانے سے" ایران کو نئی بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ایران مسلم دنیا میں فرقہ ورانہ قتال میں بری طرح سے ملوث ہے، شام اور اسی طرح عراق اور یمن میں 250,000 معصوم سنی مسلمانوں کی موت کے لیے ایران ذمہ دار ہے۔ ۔۔ مسلم ممالک کو ایران کی سنی مسلمان مخالف دہشتگردانہ کاروائیوں کو روکنا چاہیئے۔۔۔ بنیادی طور پر ایران مسلم امّہ کا جزو نہیں ہے، وہ ہمیشہ مسلمان ممالک اور امریکہ، اسرائیل ، بھارت اور روس جیسے اچھے دوستوں کی مخالفت کرتا ہے۔۔۔

جواب