معاشرہ

پاکستان کی طرف سے خیرات کے نام پر بھتے کے خلاف تنبیہ

از محمد شکیل

گزشتہ 8 اپریل کو کراچی میں پاکستانی ایک خیراتی ادارے سے کھانا حاصل کرتے ہوئے۔ پاکستان پیس کولیکٹو (پی پی سی) کے ساتھ، پاکستانی حکام پیسے کو دہشت گردوں یا مجرم عناصر کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لیے خیرات کیے جانے والے عطیات کے بارے میں شعور اجاگر کر رہے ہیں۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

گزشتہ 8 اپریل کو کراچی میں پاکستانی ایک خیراتی ادارے سے کھانا حاصل کرتے ہوئے۔ پاکستان پیس کولیکٹو (پی پی سی) کے ساتھ، پاکستانی حکام پیسے کو دہشت گردوں یا مجرم عناصر کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لیے خیرات کیے جانے والے عطیات کے بارے میں شعور اجاگر کر رہے ہیں۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

پشاور – پاکستانی حکام شہریوں کو دھوکہ باز خیراتی اداروں سے بچانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جو خیرخواہ افراد سے پیسہ بٹورتے ہیں۔

پاکستان پیس کولیکٹو (پی پی سی)، ایک بلامنافع کام کرنے والی تنظیم جو وزارتِ اطلاعات کے اشتراک سے کام کرتی ہے، نے آگاہی کے پروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جن کا مقصد شہریوں کی عطیات دینے میں رہنمائی کرنا ہے۔

پی پی سی کے "حق حقدار تک" سیمینارز فرضی خیراتی اداروں کے بارے میں آگاہی بڑھاتے ہیں جو دہشت گرد اور انتہاپسند تنظیموں کے ہراول دستے کے طور پر کام کرتے ہیں۔

پروگرام کے مقاصد میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف عوامی اتفاقِ رائے پیدا کرنا، قومی اتحاد کو مضبوط کرنا اور معاشرے میں امن کو فروغ دینا شامل ہیں۔

پاکستان پیس کولیکٹو (پی پی سی) کی سی ای او بشریٰ تسکین (بائیں) 22 فروری کو پشاور میں ایک فالج مرکز کو عطیہ دیتے ہوئے۔ [پاکستان پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ]

پاکستان پیس کولیکٹو (پی پی سی) کی سی ای او بشریٰ تسکین (بائیں) 22 فروری کو پشاور میں ایک فالج مرکز کو عطیہ دیتے ہوئے۔ [پاکستان پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ]

پی پی سی کی چیف ایگزیکٹو افسر بشریٰ تسکین نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہماری آبادی کی ایک بڑی اکثریت جو سادہ لوح اور معصوم ہیں اکثر پیسے ہتھیانے کی غرض سے غیر اندراج شدہ اور غیر مجاز تنظیموں کی جانب سے گمراہ کیے جاتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہمارے تحقیقی مواد سے انکشاف ہوا ہے کہ کچھ عسکریت پسند تنظیمیں اور دھوکہ باز فطرت کے لوگ خیرات کے تناظر میں اور انسانی خدمت کے نام پر عوام کی خون پسینے کی کمائی سے بڑی رقوم ہتھیا لیتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ پی پی سی کا مقصد اس رواج کو روکنا ہے، جنہوں نے بااثر اور کم بااثر شہریوں کو جھانسہ دیا ہے جنہیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ان کے عطیات خونریز سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

پہلے تصدیق کریں، پھر عطیہ دیں

تسکین نے کہا کہ پاکستانی عوام مختلف فلاحی اداروں کو سالانہ 554 بلین روپے (5.3 بلین ڈالر) کے عطیات دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ عطیات کا 30 فیصد غیر تصدیق شدہ اداروں کو جاتا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ پی پی سی کا مقصد عوام کو قانونی خیراتی اداروں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا نیز عطیات کو انتہاپسندوں اور دہشت گرد گروہوں سے دور رکھنے کی شہریوں کی ذمہ داری کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔

پی پی سی کے مرکزی رابطۂ کار شبیر انوار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "جب تک ملک کے ایک ایک شہری کو اس کی 'پہلے تصدیق پھر عطیہ' کی قومی ذمہ داری سے آگاہ نہیں کیا جاتا، کوششوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ناممکن ہو گا۔"

انہوں نے کہا، "ہمارے محققین اور مشیروں کے کام نے [۔۔۔] یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ عطیات کی رقوم کا ایک بڑا حصہ غیر اندراج شدہ اداروں کو منتقل کیا گیا اور بعض صورتوں میں ذاتی کاروباری سکیموں میں سرمایہ کاری کی گئی۔"

انہوں نے کہا، "ہماری مہم کا مقصد عوام کو ان کے عطیات کے غلط استعمال کے بارے میں ایک واضح تصویر پیش کرنا، درست اور غلط کے درمیان فرق کرنے ۔۔۔ کی ضرورت کو نمایاں کرنا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ حق حقدار تک مہم کے جزو کے طور پر، پی پی سی نے ویڈیو دستاویزی فلمیں تقسیم کی ہیں اور عوامی سیمینار کے انعقاد کے ساتھ ساتھ دو منٹ کے ریڈیو پیغامات مشتہر کیے ہیں۔

انوار نے کہا، "معاملہ سنگین اور مشکل ہے اور توانائیوں اور وسائل کے زیادہ استعمال کا مستحق ہے۔"

انہوں نے کہا کہ حق حقدار تک مہم فیصل آباد، بہاولپور، راولپنڈی، حیدرآباد، کوئٹہ، کراچی، قلات اور گلگت بلتستان میں چلی ہے اور معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانی حصہ لینے کے قابل رہے ہیں۔

زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لیے تقریبات ضلعی سطح پر منعقد ہوئیں۔

دہشت گرد بے خبروں کو ہدف بناتے ہیں

پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے 28 جون 2015 کو ڈان کے لیے ایک اداریئے میں لکھا، "انہیں کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد، بہت سے [عسکریت پسند] گروہ عوام الناس میں اپنے تشخص کو بڑھانے اور سرکاری پابندیوں سے بچنے کے لیے خیراتی اداروں کے طور پر سامنے آئے۔"

انہوں نے کہا، "اس مشغلے نے ان کی نہ صرف سماجی قبولیت حاصل کرنے میں مدد کی بلکہ انہیں اپنی حمایت کو وسیع کرنے کے قابل بھی بنایا،" انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسند گروہ اپنے 55 فیصد سے 65 فیصد فنڈز مقامی کفیلوں سے اکٹھے کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "کچھ گروہ تجارتی مراکز اور گھر گھر جانے کی مہمات سے عطیات جمع کرتے ہیں، بظاہر خیراتی مقاصد کے لیے، لیکن بہت کثرت سے دہشت گرد تنظیموں کے لیے چندہ جمع کرنے کے اعضاء کے طور پر کام کرتے ہیں۔"

"لوگ ایسی مہمات میں فیاضی سے جواب دیتے ہیں، خصوصاً رمضان کے دوران۔"

دہشت گردی میں سرمایہ کاری کو روکنے اور امن و امان قائم رکھنے کی ایک کوشش میں، وزارتِ داخلہ نے گزشتہ جون میں 60 تعصب پسند تنظیموں کے عطیات اور خیرات جمع کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

پشاور کی مقامی ایک بلامنافع کام کرنے والی فلاحی تنظیم، انصاف کی تلاش میں، کے نائب صدر نشین، خالد احمد داور نے کہا کہ جبکہ آگاہی کی مہمات اور قانونی کوششوں کو کچھ کامیابی ملی ہے، پیغام دور دراز کے دیہات تک نہیں پہنچ رہا۔

عسکریت پسند گروہ اور غیر اندراج شدہ تنظیموں نے یہ حربہ اپنایا ہوا ہے، کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "گڑبڑ کے امکانات اس وقت بڑھ جاتے ہیں جب ہدف کو بے خبر رکھا جاتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "معاملے کی حساسیت اور امر کی اہمیت تقاضہ کرتی ہے کہ آگاہی کے ایسے پروگرام دور دراز کے مکینوں کو تعلیم دینے کے لیے تمام دیہاتوں اور یونین کونسلوں میں منعقد کیے جائیں۔"

انہوں نے کہا، "حکومتی آغاز [۔۔۔] تحسین کا حقدار ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ مناسب سرمائے کی تخصیص کے ساتھ ساتھ اس کی حدود کو ملک کے ہر ہر کونے میں وسیع ہونا چاہیئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

سب کو اپنے عطیات سے متعلق معلومات ہونی چاہیئں کہ وہ کسے دیے جا رہے ہیں اور یہ معلوم کر لینا چاہیئے کہ ادارہ اچھا ہے یا نہیں۔

جواب

پذیرائی۔۔۔

جواب