دہشتگردی

بلوچستان میں حکام کی جانب سے خودکش حملوں کے لیے بچوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کی تنبیہ

عبدالغنی کاکڑ

گزشتہ برس کے اواخر میں ضلع قلعہ عبداللہ، بلوچستان میں ایک اغوا کار ملزم اور دو بچے، جنہیں اس نے مبینہ طور پر اغوا کیا، چمن لیویز کی حراست میں دکھائے گئے ہیں۔ [بشکریہ عبدالغنی کاکڑ]

گزشتہ برس کے اواخر میں ضلع قلعہ عبداللہ، بلوچستان میں ایک اغوا کار ملزم اور دو بچے، جنہیں اس نے مبینہ طور پر اغوا کیا، چمن لیویز کی حراست میں دکھائے گئے ہیں۔ [بشکریہ عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ — حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروہ بلوچستان میں خودکش حملے کرنے کے لیے بچوں کو اغوا اور ان کی دماغ شوئی کرنے کا سہارا لے رہے ہیں۔

کوئٹہ میں ایک اعلیٰ انٹیلی جنس عہدیدار محمّد رضوان خالد نے کہا، ”بلوچستان میں جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عسکریت پسند گروہ شکست پذیر ہیں اور اب 'شہادت' کے مشن ہی بدلہ لینے کے لیے ان کا واحد ذریعہ ہیں۔“

افواج کی جانب سے ضربِ عضب اور ردّالفساد جیسے انسدادِ شورش کے آپریشن کیے جانے پر عسکریت پسندوں کو ہزاروں کی تعداد میں جانی نقصان ہوا ہے۔ اور اب وہ مبینہ طور پر مایوسی کے اقدام کا سہارا لے رہے ہیں۔

خالد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”بچے خودکش حملہ آوروں کے استعمال میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے کیوں کہ بنیاد پرست گروہ ریاست اور معاشرے کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔“

انہوں نے کہا، ”نفاذِ قانون کے ادارے بنیاد پرست گروہوں کے از سرِ نو ظہور کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہے ہیں۔“

المناک ثبوت

حکام نے بلوچستان میں بچوں کے بمبار بننے کے ہولناک واقعات کا مشاہدہ کیا ہے۔

گزشتہ نومبر خضدار میں ایک نوعمر لڑکے نے ایک صوفی مزار میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے کم از کم 52 افراد جاںبحق ہوئے۔

خالد نے کہا، ”شدّت پسند گروہ بچوں کے اغوا میں ملوث ہیں جن کی خود کش حملے کرنے کے لیے وہ دماغ شوئی کرتے ہیں۔“

وزارتِ داخلہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار شعیب واجد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”صوبے کے مختلف حصّوں میں لا پتہ بچے ہمارے لیے ایک سنجیدہ تشویش ہیں۔ ہمیں شک ہے کہ عسکریت پسند گروہ ملوث ہو سکتے ہیں۔“

واجد نے کہا کہ حکام نے حال ہی میں کوئٹہ میں ایک 10 سالہ لڑکی کو خضدار بم حملہ آور کی نقل کرنے سے روکا، انہوں نے یکم فروری کو فرنٹیئر کور کے ہاتھوں اس کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بات کہی۔

واجد نے کہا کہ اس لڑکی، صائمہ ”نے کہا کہ اسے اس کے عسکریت پسند اغوا کنندگان [کسی روز] کسی ہجوم میں خود کو دھماکے سے اڑانے پر مجبور کر رہے تھے۔ حکام تاحال اس کے والدین کی تلاش میں ہیں۔“

واجد نے کہا، صائمہ جیسی مزید کے امکان سے متنبہ، ”بلوچستان میں متعدد انٹیلی جنس ایجنسیاں خود کش بم حملوں میں ملوث عسکریت پسند گروہوں کی آپریشنل استعداد کو تباہ کرنے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں۔“

زد پذیر گوشوں کی تلاش

حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند پیسہ بچانے اور زد پذیر بچوں کو تلاش کرنے، ہر دو کے لیے ایسی متعدد صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جن کا وہ استحصال کر سکیں۔

اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سیکیورٹی تجزیہ کار میجر (ریٹائرڈ) محمّد عمر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مثال کے طور پر ایسے عسکریت پسند جو خود کش حملہ آور بچے کے والدین کو ادائیگی کرنے کے لیے جانے جاتے تھے، ایک ایسے اغوا شدہ بچوں کے والدین کو ادائٰیگی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جو غائب ہو گیا ہو یا جس کے ٹھکانا نامعلوم ہو۔

انہوں نے کہا، ”ایسے واقعات میں وہ [بمبار کے] اہلِ خانہ کو ادائیگی کرنے سے بری الذمہ محسوس کرتے ہیں۔“

عمر نے کہا، ”درایں اثناء، خود کش مشنز کے لیے انتخاب کے وقت عسکریت پسند گروہوں کے ہمدرد ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ وہ محنت کش بچوں کو بھرتی کے لیے زیادہ زد پذیر خیال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غربت کے دام میں گرفتار مزدور بچے دنیا میں کچھ رقم اور آخرت کی زندگی میں اجرِ عظیم کے وعدے کا ردِّ عمل دیتے ہیں۔

عمر نے ”اس امر کو مناسب توجہ کے فقدان“ کا حوالہ دیتے ہوئے تجویز دی کہ، ”سیکیورٹی ایجنسیوں کو ایسے بچوں پر تیز نظر رکھنی چاہیئے۔“

انہوں نے زد پذیر بچوں کے تحفظ کے لیے ”ٹھوس اور بامقصد اقدامات“ پر زور دیا۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے دفاعی تجزیہ کار محمّد حنیف نے تنبیہ کی، ”خود کش حملوں کی دہشتگردی ہماری قومی سلامتی کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ دہشتگرد گروہوں کی آپریشنل صلاحیتیوں کو کچلنا لازم ہے۔“

اسلام کے غلط استعمال کے خلاف جنگ

حنیف نے زور دیا کہ شدت پسندوں کے پیغام کو چیلنج کیا جائے۔

انہوں نے کہا، ”شدت پسندوں کی توضیح کے پھیلاؤ کی انسداد کے بغیر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے مثبت نتائج نہیں حاصل ہو سکتے۔ یہ بہت اہم ہے ۔۔۔ کہ عسکریت پسندوں کی پراپیگنڈا جنگ کو ناکام بنانے کے لیے سول سوسائٹی، مذہبی سکالرز اور قبائلی عمائدین کو ملوث کیا جائے۔“

ضلع پشین میں ایک مذہبی سکالر مولانا عبدالرؤف نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”علمائے دین عوام پر زبردست رسوخ ہونے کی وجہ سے خود کش دہشتگردی کو کچلنے میں ایک نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے قبائلی علاقوں جیسی جگہوں پر علمائے دین کی آواز معانی رکھتی ہے، جہاں ”بنیاد پرست عناصر گہری جڑوں کے حامل ہیں اور جہاں سے ان کے حامی۔۔۔ اپنی امن مخالف سرگرمیوں کو چلاتے ہیں۔“

رؤف نے عسکریت پسندوں کی جانب سے آیاتِ قرآن کے غلط استعمال کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا، ”قرآنِ پاک میں کوئی ایسی چیز نہیں جو خودکش حملوں کی توجیح ہو“، انہوں نے مزید کہا کہ قرآن خود کشی کے لیے حیات بعدالموت میں سخت سزا کی تنبیہ کرتا ہے۔ ”کسی کو بے جا قتل کرنا ایسا ہے جیسا کہ پوری انسانیت کو قتل کرنا۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پاکستان کئی برس قبل سے اس مسئلہ کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان اس دنیا کا دولت مند ملک ہے

جواب