دہشتگردی

سخت حفاظتی انتظامات میں پاکستان نے کرکٹ کی واپسی کا جشن منایا

جاوید خان

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے فائنل میچ میں جو کہ 5 مارچ کو لاہور میں ہوا، پشاور زلمی کے کرکٹرز کوئٹہ گلیڈییٹرز کے خلاف اپنی جیت کو منا رہے ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے فائنل میچ میں جو کہ 5 مارچ کو لاہور میں ہوا، پشاور زلمی کے کرکٹرز کوئٹہ گلیڈییٹرز کے خلاف اپنی جیت کو منا رہے ہیں۔ ]عامر قریشی/ اے ایف پی[

پشاور - اتوار (5 مارچ) کو لاہور میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے فائنل میچ میں ایک خاتون تماشائی نے کتبہ اٹھا رکھا ہے جس پر لکھا ہے "آج پاکستان جیت گیا"۔

اس میں ان جذبات کی مکمل عکاسی ہوتی ہے جو پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈییٹرز کے درمیان انتہائی بے چینی سے انتظار کیے جانے والے میچ میں پائے جاتے تھے۔ یہ میچ انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ لاہورمیں منعقد ہوا۔

حکام نے کہا کہ قذافی اسٹیڈیم کھچکا کھچ بھرا ہوا تھا اور ساری ٹکٹیں بک گئی تھیں۔

کرکٹ کے پرجوش شائقین نے ملک بھر میں یہ میچ دیکھا جس میں پشاور زلمی نے کوئٹہ کی ٹیم کو 58 رنز سے ہرا دیا۔

ایک پاکستانی پولیس اہلکار 5 مارچ کو لاہور میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میچ سے پہلے ایک تماشائی کی تلاشی لے رہا ہے۔ پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈییٹرز کو سخت سیکورٹی میں قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں ہرا دیا۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

ایک پاکستانی پولیس اہلکار 5 مارچ کو لاہور میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میچ سے پہلے ایک تماشائی کی تلاشی لے رہا ہے۔ پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈییٹرز کو سخت سیکورٹی میں قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچ میں ہرا دیا۔ ]عارف علی/ اے ایف پی[

سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس آپریشنز پشاور سجاد خان کے مطابق، پشاور میں ایک جگہ پر 5,000 شائقین جمع ہوئے جن میں نوجوان مرد اور عورتیں شامل تھیں اور جو حیات آباد سپورٹس کامپلکس میں جمع ہوئے تھے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "جب کھیلوں کے حکام نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے انہیں مناسب سیکورٹی مہیا کرنے کا وعدہ کیا"۔

انہوں نے کہا کہ "موڈ خوشی کا تھا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پشاور زلمی کے پرستاروں نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آتش بازی کی اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا۔

"لوگ کرکٹ کی واپسی اور امن کی جیت کا جشن منا رہے تھے"۔

انتہائی سخت حفاظتی انتظامات

لاہور میں پی ایس ایل کے فائنل کے لیے سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے تھے۔ پی ایس ایل کے باقی میچ متحدہ عرب امارات میں ہوئے تھے۔

پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ 10,000 سے زیادہ سیکورٹی کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جن میں پنجاب پولیس اور پیرا ملٹری رینجرز بھی شامل تھے۔

ای ایس پی این نے خبر دی ہے کہ لاہور کے اسٹیڈیم کی حفاظت کے لیے، حکام نے میچ سے کم از کم تین دن پہلے اسٹیڈیم کو عوام کے لیے بند کر دیا تھا۔

تماشائیوں کو تین جگہوں پر سیکورٹی کی چیکنگ سے گزرنا پڑا۔ ہر کسی کو پیدل چل کر آنا تھا۔ کسی بھی غیر سرکاری گاڑی کو اسٹیڈیم سے ایک کلومیٹر کے فاصلے تک جانے کی اجازت نہیں تھی۔

حکام نے اردگرد کی سڑکوں کو بند کر دیا اور اسٹیڈیم میں سکینر، چہرے کی شناخت کرنے والے کلوزڈ سرکٹ ٹی وی اور پولیس کنٹرول سینٹرز بنائے۔

مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ بدترین حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے 25 بستروں کا ہسپتال قریب واقع ہاکی اسٹیڈیم میں قائم کیا تھا۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی فورسز کی طرف سے تقریب کو محفوظ بنانے کے لیے مکمل حمایت کا وعدہ کیا تھا۔

مقامی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ سیکورٹی فورسز نے اسٹیڈیم کے قرب و جوار میں تقریبا ایک ہفتہ تک تلاشی اور ضرب کی مہم انجام دی تھی۔ انہوں نے تقریب سے پہلے اسٹیڈیم اور اس کو جانے والے راستوں کو سونگھنے والے کتوں اور بم ڈیٹیکٹروں سے کنگھالا۔

دی نیشن نے خبر دی ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نے حفاظتی انتظامات کے حصہ کے طور پر اسٹیڈیم کے گرد چار گشتی ٹیمیں تعینات کی تھی جو تماشائیوں کے کمپیوٹرازڈ قومی شناختی کارڈز (سی این آئی سیز) کو چیک کر رہی تھیں۔

اس خبر کے مطابق، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے کھلاڑیوں کو اسٹیڈیم تک لے جانے اور انہیں واپس ہوٹل تک لانے کے لیے بلٹ پروف بس فراہم کی۔

ان سخت حفاظتی انتظامات کا مقصد مارچ 2009 میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی یادوں کو مٹانا تھا۔ اس حملے میں سری لنکا کے کم از کم چھہ شہری زخمی ہوئے تھے اور آٹھ پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔

پی ایس ایل کا فائنل اس المناک دن کے بعد سے لاہور میں ہونے والی کرکٹ کی سب سے بڑی تقریب تھی۔

پی ایس ایل فائنل جوش اور فخر کا باعث بنا

تماشائی اور حکام کرکٹ کے اعلی کھلاڑیوں کو پاکستان میں ایک بار پھر کھیلتا ہوا دیکھ کر بہت پرجوش تھے اور انہوں نے اس تقریب کی حفاظت کرنے پر پولیس کی تعریف کی۔

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان "زیادہ مظبوط، محفوظ اور مستحکم ہو گیا ہے اور ایسا ماحول پیدا ہوا ہے جو قومی امنگوں کے مطابق ہے۔ کرکٹ ہم سب کے دلوں کے بہت زیادہ قریب ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ پاکستان کو کھیلوں کے میدان میں واپس لانے کی طرف پہلا قدم ہے اور آنے والے مستقبل کے لیے ایک مثبت علامت ہے"۔

پشاور کلب کے سابقہ کرکٹر سفیر احمد نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ پاکستان میں پی ایس ایل کے فائنل کے انعقاد نے دہشت گردوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ انہیں شکست ہو گئی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی کرکٹ پاکستان اور پشاور میں پوری طرح واپس آ جائے"۔

جیو نیوز کے ٹی وی میزبان حامد میر نے ٹوئٹ کیا کہ "پی ایس ایل کا فائنل لاہورمیں ختم ہوا اب دہشت گردی کے خطرے سے آزادی سے لطف اندوز ہوں۔ ہماری پولیس اور سیکورٹی فورسز کو ان کی سخت محنت پر سلام"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے کھیلوں کے صحافی عدنان طارق نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پولیس اور تمام سینئر افسران نے بہت زبردست کام کیا اور وہ سڑکوں پر موجود رہے تاکہ سینکڑوں پشاوریوں کی حفاظت کو یقینی بنا سکیں جو صبح کے دو بجے تک پشاور زلمی کی فتح کا جشن منا رہے تھے"۔

شہباز شریف نے ٹوئٹ کیا کہ "اسٹیڈیم کو بھرتا دیکھ کر میرا دل فخر سے بھر گیا۔ لاہوریوں اور سارے پاکستانیوں نے دہشت کو میدان سے نکال باہر کیا۔ میرے نزدیک یہ ہی بہادر لوگ ہیں"۔

خیبرپختونخواہ (کے پی) کے وزیراعلی پرویز خٹک نے پشاور زلمی کو شہر میں بلایا ہے تاکہ ان کی جیت کا جشن منایا جا سکے۔

'کھیل سے کہیں بڑھ کر'

پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی جنہوں نے روایتی پشتون پگڑی باندھ رکھی تھی، نے پی ایس ایل ٹرافی وصول کرنے کے بعد کہا کہ "میرے لیے یہ کرکٹ کے کھیل سے کہیں بڑھ کر ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ ایک زبردست دن ہے کیونکہ میں محسوس کرتا ہوں کہ میں آج لاہور اور پشاور میں بہت سے چہروں پر مسکراہٹ لایا ہوں"۔

پشاور زلمی ٹیم کے مالک جاوید آفریدی، نے اس فتح کو اپنے والد اور پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے طلباء کے نام کیا جہاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں نے 2014 میں حملہ کر کے 141 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں اکثریت اسکول کے بچوں کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ "وعدے کے مطابق، میں اس ٹرافی کو اے پی ایس میں لے کر آؤں گا"۔

طویل عرصے سے منصوبہ شدہ پی ایس ایل کے فائنل کو لاہور میں منعقد کرنا ایک ماہ پہلے تک غیر یقینی تھا جب طالبان کے دعوی کردہ خودکش حملے نے 13 فروری کو 15 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس وقت، پی ایس ایل کے چیرمین نجم سیٹھی نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ غیر ملکی کھلاڑی فائنل کے لیے لاہور آنے پر تیار نہیں ہوں گے۔

ای ایس پی این کے مطابق، انہوں نے کہا کہ "ہمیں دہشت گردوں کو یہ دکھانا ہے کہ ہم خوف زدہ نہیں ہیں اور ہمیں دکھانا ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے"۔

سری لنکا کی ٹیم پر 2009 میں ہونے والے حملے کے بعد سے، غیر ملکی کرکٹروں نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا ہے اور شاذ و نادر مستثنیات ہوئی ہیں جسے کہ زمبابوے نے 2015 میں لاہور میں ایک میچ کھیلا۔

پی ایس ایل کے فائنل کے بعد، سیٹھی نے ٹوئٹر پر تشکر کا اظہار کیا اور کہا "لاہوریو! پاکستانیو! پی ایس ایل اور پاکستان پر یقین کرنے کا شکریہ۔ مل کر ہم قابو پا لیں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500