دہشتگردی

اسلام کو بدنام کرنے پر علماء کی جانب سے طالبان کو ملامت

از نجیب اللہ

23 نومبر 2016 کو افغان سوگواران کابل میں ایک مسجد پر خونریز بم حملے میں جاں بحق ہونے والے 27 افراد کے جنازے لے جاتے ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) نے قبول کی تھی۔ [شاہ مرائی/اے ایف پی]

23 نومبر 2016 کو افغان سوگواران کابل میں ایک مسجد پر خونریز بم حملے میں جاں بحق ہونے والے 27 افراد کے جنازے لے جاتے ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) نے قبول کی تھی۔ [شاہ مرائی/اے ایف پی]

کابل -- افغان دینی علماء کا کہنا ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں اور نتیجتاً اسلام کو بدنام کرتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ خصوصاً خودکش بم دھماکے اور "جہاد" کے لبادے میں فساد اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔

افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کے مطابق، گزشتہ برس، افغانستان میں 11،500 عام شہری، بشمول 3،500 سے زائد بچے عسکریت پسندوں کے حملوں میں جاں بحق یا زخمی ہوئے تھے۔

کابل کے ایک مدرسے میں علومِ اسلامی کے ایک طالب علم، محمد معصوم نے کہا، "بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا اسلامی تعلیمات کی رُو سے گناہِ کبیرہ ہے۔"

عسکریت پسندوں کے حملوں میں عام شہریوں کی بڑھتی ہوئی اموات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے افعال اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں لہٰذا انہیں اسلام کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ اس کے باوجود بے اصول عسکریت پسند عام شہریوں کو قتل کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

افغان دینی علماء اس نکتے پر متفق ہیں۔

ایک افغان دینی عالم، مولوی عبدالاحمد جبار نے کہا کہ عام شہریوں کو ہلاک کرنا اور خودکش حملے کرنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "اسلام مفاہمت، امن اور سکون کا دین ہے، لیکن عسکریت پسند ایک بالکل ہی متضاد تصویر پیش کرتے ہیں۔"

ایک افغان دینی عالم محمد سالم حسنی نے سلام ٹائمز کو بتایا، "بدقسمتی سے، عسکریت پسندی اپنی غلط اور یک طرفہ تشریحات کے ساتھ دنیا کے لیے اسلام کی ایک پرتشدد تصویر پیش کرتے ہیں۔"

جنوری کے آغاز میں علمائے دین، سیاسی جماعتوں کے نمائندگان اور قانون ساز افغانستان میں رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے اور عسکریت پسندوں کو فساد ترک کرنے کی ترغیب دینے کے لیے جمع ہوئے۔

شرکاء نے نتیجہ اخذ کیا کہ طالبان اور "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کے پاس دین کا مکمل علم نہیں ہے اور وہ افغانستان کی علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

طلوع نیوز کے مطابق، افغان رکنِ اسمبلی میر واعظ یاسینی نے 5 جنوری کو ہونے والے سیمینار میں کہا، "داعش کا نظریہ ایک باطل نظریہ ہے، وہ دین کی غلط تشریح کر رہے ہیں، وہ دین کے بارے میں نہیں جانتے، وہ دین کے تشخص کو صرف مسخ کر رہے ہیں۔"

جہاد کی غلط تشریح

علماء کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند اپنے فساد اور غیر اسلامی افعال کی تائید کے لیے اکثر "جہاد" کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، ان گروہوں کے افعال کا "جہاد" کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔

حسنی نے کہا، "اسلام میں، ایک فعل اس وقت 'جہاد' تصور کیا جاتا ہے جب اس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ کی عظمت کی حفاظت ہو، تمام مسلمانوں کے لیے سکون اور فخر لانا ہو۔"

انہوں نے کہا، "حکومت مخالفوں کی جانب سے جسے 'جہاد' کہا جاتا ہے وہ حقیقت میں جہاد نہیں ہے، کیونکہ ان گروہوں، جو حقیقتاً فساد کا منظر پیش کرتے ہیں، کی کارروائیوں کے نتیجے میں تذلیل اور تقسیم ہوئی ہے۔"

ایک اور عالمِ دین، ولی اللہ لبیب نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کا ایک بہت ہی مختصر سا حصہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہے، جبکہ باقی سب کا سب خلافِ اسلام ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "یہ عسکریت پسند ایسے غیر اسلامی افعال انجام دیتے ہیں جو یا تو ان کی جہالت کی وجہ سے ہوتے ہیں یا اس حقیقت کے سبب کہ وہ دائرۂ اسلام سے مکمل طور پر خارج ہیں۔"

انہوں نے کہا، "اگرچہ افغان حکومت کے اندر بدعنوانی موجود ہے، ایک اسلامی حکومت کے خلاف لڑنا کسی بھی طرح 'جہاد' تصور نہیں کیا جاتا۔"

انہوں نے کہا کہ مزید برآں، عسکریت پسندوں کے حربوں میں سے ایک حربہ، خودکش بمباری، کبھی بھی اسلام میں قابلِ اجازت تصور نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اول، خودکش حملوں کے نتیجے میں اکثر عام شہری مرتے ہیں، اور دوم، خودکشی بذاتِ خود حرام ہے۔

لبیب نے کہا، "اسلامی تعلیمات میں کبھی بھی خودکشی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500