دہشتگردی

چارسدہ میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں والے حملے کو ناکام بنانے پر پولیس کی تعریف

جاوید خان

امدادی کارکن اکیس فروری کو تانگی تحصیل، چارسدہ ڈسٹرکٹ، خیبرپختونخواہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد امدادی کام کر رہے ہیں۔ اس دن تین خودکش بمباروں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ ]جاوید خان[

امدادی کارکن اکیس فروری کو تانگی تحصیل، چارسدہ ڈسٹرکٹ، خیبرپختونخواہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد امدادی کام کر رہے ہیں۔ اس دن تین خودکش بمباروں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر پولیس نے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ ]جاوید خان[

پشاور - پولیس نے منگل (اکیس فروری) کو دو ممکنہ خودکش بمباروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اس سے پہلے کہ وہ خیبرپختونخواہ کی چارسدہ ڈسٹرکٹ کی تانگی تحصیل میں داخل ہو سکتے۔ تیسرے بمبار نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔

چارسدہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر سہیل خالد نے اخباری نمائںدوں کو بتایا کہ "حملہ آور عدالت میں داخل ہونا چاہتے تھے اور ان میں سے ایک کے اپنے آپ کو اڑانے سے پہلے انہوں نے فائرنگ کی اور دستی بم پھینکے"۔

ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق، دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک اور دیگر سولہ زخمی ہو گئے جن میں چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

پیرامیڈیک سروس کے ترجمان بلال فیضی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ریسکیو 1122 کی ایمبولینسیں پشاور اور مردان سے چارسدہ پہنچیں اور عملے کو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا اندیشہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ "شدید زخمی ہونے والے چودہ افراد کو پشاور منتقل کر دیا گیا ہے"۔

خالد نے کہا کہ پولیس نے حملے کے بعد، تانگی تحصیل کے مضافات میں چھاپے مارے اور بدھ (22 جنوری) کو تین مبینہ سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ذیلی گروہ جماعت الاحرار نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، یہ حملہ بظاہر گزشتہ ہفتے ہونے والے حملوں کے ایک باضابطہ سلسلے کا حصہ ہے جس میں لاہور میں ہونے والا زبردست دھماکہ بھی شامل ہے جس میں چودہ افراد ہلاک ہو گئے تھے.

ردعمل سے جانیں بچیں

پولیس کے حکام اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے فوری ردعمل کے باعث زیادہ بڑی تعداد میں ہلاکتوں سے بچنا ممکن ہو سکا جو کہ یقینی طور پر دہشت گردوں کی خواہش تھی۔

عدالتوں کے مرکزی دروازے پر پولیس کی سیکورٹی کے انچارج افسر فضل الربی نے کہا کہ انہیں اس وقت شک ہوا جب انہوں نے دو آدمیوں کو گیٹ کی طرف آتے دیکھا جن میں سے ایک نے روایتی چادر پہن رکھی تھی۔

ربی نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں، جہاں ان کے زخموں کا علاج جاری ہے، کہا کہ "میں نے دور سے اسے پکارا اور اسے کہا کہ وہ چادر اتار دے کیونکہ ہم عدالت کے اندر ان کی اجازت نہیں دیتے ہیں"۔

جب ملزم نے ربی کی طرف سے رک جانے اور اپنے باہر کے کپڑے اتارنے کے لیے دیے جانے والے بہت سے انتباہات کی حکم عدولی کی تو اس نے انہیں گولی مارنے کا حکم دیا۔

پولیس کے ردعمل کی زبردست تعریف کی جا رہی ہے۔

کے پی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس محمد سید وزیر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "تین خودکش بمباروں کے خلاف فوری ردعمل لینے میں چارسدہ پولیس کی طرف سے دکھائی جانے والی بہادری اور عزم بے مثال ہے"۔

ایک مقامی شہری اور عینی شاہد، عمیر خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پولیس چوکنا تھی اور انہوں نے فوری ردعمل دکھایا وگرنہ درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے"۔

کے پی کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ناصر خان درانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کے پی کے تمام اضلاع میں پولیس نے حالیہ دھمکیوں کے ردعمل میں اضافی حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹ کیا کہ "پولیس کے ردعمل کے پہلے درجے کے باعث بہت سی جانیں بچی ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوری ردعمل دکھانے پر سیکورٹی فورسز کی تعریف کی ہے۔

پولیس کے لیے انعامات

کے پی بھر میں وکلاء نے بدھ کو عدالتوں کا بائیکاٹ کیا تاکہ عدالتوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔

پشاور میں ایک احتجاج کے دوران، وکلا نے پولیس کو ان کی چوکسی اور فوری ردعمل پر سراہا۔

پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی چیرمین عمران خان نے ایک بیان میں کہا کہ "پولیس نے فوری ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملہ آوروں کو ناکام بناتے ہوئے قابل تعریف کام کیا ہے"۔

کے پی کی حکومت کے ترجمان اور وزیراعلی کے لیے اطلاعات کے مشیر مشتاق غنی نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ "ہمیں کے پی کی پولیس پر فخر ہے جس نے ردعمل کا مظاہرہ کیا اور دو خودکش بمباروں کو بڑے پیمانے پر لوگوں کو ہلاک کرنے سے پہلے ہی ہلاک کر دیا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ کے پی پولیس افسران جنہوں نے بہت سی جانیں بچائیں وہ حقیقی ہیرو ہیں۔

کے پی کے وزیراعلی پرویز خٹک نے پانچ ملین روپے (47,703 ڈالر) کے انعام کا اعلان کیا جسے ان پولیس اہلکاروں میں تقسیم کیا جائے گا جنہوں نے حملہ آوروں کو ہلاک کیا۔

انہوں نے کہا کہ "پولیس کی طرف سے دکھائی جانے والی بہاردی بہت غیر معمولی ہے"۔

حملوں میں اضافہ

پاکستان میں 13 فروری کے بعد سے حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے جب ایک خودکش بمبار نے لاہور میں کم از کم 15 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جس میں دو سینئر پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔

اسی ہفتے، ایک خودکش بمبار نے پشاور میں ججوں کو لے جانے والی وین کو نشانہ بنایا، دو خودکش بمباروں نے مہمند ایجنسی میں سرکاری عمارت پر حملہ کیا اور کوئٹہ اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی بم دھماکے ہوئے۔

سب سے ہلاکت خیز حملہ سہون، صوبہ سندھ میں 16 فروری کو صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کے مزار پر ہوا۔ اے ایف پی کے مطابق اس خودکش دھماکے میں نوے افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پاکستانی حکام ابھی بھی پریقین اور پراعتماد ہیں۔

سابقہ فوجی افسر اور سیکورٹی کے تجزیہ نگار برگیڈیر (ریٹائرڈ) اسد منیر، جن کا تعلق پشاور سے ہے، نے عسکریت پسندوں کے حوالے سے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میرا خیال ہے کہ یہ سرگرمیاں زیادہ دیر تک نہیں چلیں گی کیونکہ وہ پہلے ہی کمزور ہو گئے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500