دہشتگردی

پاکستان نے ممبئی حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز کو حراست میں لے لیا

از عبدالناصر خان

31 جنوری کو لاہور میں پاکستانی پولیس کی جانب سے نظر بند کیے جانے کے بعد جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی) کے امیر حافظ سعید (دائیں) ایک کار میں روانہ ہوتے ہوئے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

31 جنوری کو لاہور میں پاکستانی پولیس کی جانب سے نظر بند کیے جانے کے بعد جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی) کے امیر حافظ سعید (دائیں) ایک کار میں روانہ ہوتے ہوئے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

لاہور -- پاکستانی حکام نے سوموار (30 جنوری) کو لاہور میں جماعت الدعوۃ (جے یو ڈی) کے امیر حافظ سعید اور تنظیم کے چار ارکان کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی بنیاد پر حراست میں لے لیا۔

وزارتِ داخلہ کی جانب سے 27 جنوری کو ایک بیان میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کے پاس "یہ یقین کرنے کی وجوہات" موجود ہیں کہ جماعت الدعوۃ اور اس کی فلاحی تنظیم فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) "کچھ مخصوص سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو امن و امان کے لیے مضر ہو سکتی ہیں اور اقوامِ متحدہ کی دفاعی کونسل کے ضابطہ نمبر 1267 کے تحت پاکستان کے فرائض کی خلاف ورزی ہیں۔"

ضابطہ نمبر 1267 طالبان، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔

اس ہدایت کے بعد، وزارتِ داخلہ پنجاب نے دو تنظیموں کو چھ ماہ کے لیے زیرِ نگرانی کی فہرست میں شامل کر لیا، جو کہ قابلِ توسیع ہے، اور انہیں اے ٹی اے کے دوسرے شیڈول میں درج کر لیا ہے۔

وزارتِ داخلہ پنجاب کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا، "حافظ محمد سعید، عبد اللہ عبید، ظفر اقبال، عبدالرحمان عابد اور قاضی کاشف نیاز مبینہ طور پر مذکورہ بالا تنظیموں کے فعال ارکان ہیں۔ اس لیے، ان نہیں امتناعی حراست میں رکھنا لازمی ہے۔"

سیکریٹری داخلہ پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان نے اپنے حکم کے مطابق کہا، "میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ حافظ سعید کی نظربندی انہیں ایک ایسے طریقے سے عمل کرنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے جو امنِ عامہ، طمانیت اور حفاظت کے لیے نقصان دہ ہے، اور انہیں فی الفور نظربند کرنا ضروری ہے۔"

2008 میں ممبئی کے قتلِ عام کے ملزم

جماعت الدعوۃ، جو اقوامِ متحدہ میں بطور دہشت گرد تنظیم درج ہے، کو کچھ لوگوں کی جانب سے لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) کا ایک فرنٹ تصور کیا جاتا ہے، جو کہ ایک عسکری گروہ ہے جس پر 2008 میں ممبئی، انڈیا پر حملے کا الزام ہے، جس میں کم از کم 164 افراد مارے گئے تھے۔

ممبئی کی قتل و غارت پوری دنیا میں ٹیلی وژن پر براہِ راست چلائی گئی تھی جب کمانڈوز پوری طرح سے مسلح 10 افراد سے مصروفِ جنگ تھے جو 26 نومبر 2008 کی شام سمندری راستے سے پہنچے تھے۔ شہر پر مکمل قابو پانے میں حکام کو تین دن لگ گئے تھے۔

حافظ سعید اس قتل و غارت میں مشتبہ منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے، اور اپریل 2012 میں، امریکہ نے ان کو گرفتار کروانے اور ان کے مبینہ کردار کے لیے سزا دلوانے پر 10 ملین ڈالر انعام رکھا تھا۔

اے ایف پی نے کہا کہ انعام مقرر کیے جانے کے باوجود، حافظ سعید نے ایک اعلیٰ سطحی عوامی زندگی گزاری ہے۔ برسوں سے، جماعت الدعوۃ نے پورے ملک میں آزادانہ طور پر کام کیا ہے، اور اپنے فلاحی کاموں خصوصاً قدرتی آفات کے تناظر میں کام کرنے کے لیے مشہور ہے۔

حافظ سعید نے حملے میں اپنے ملوث ہونے سے قطعی انکار کیا ہے اور لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوۃ کے درمیان ربط کی تردید کی ہے۔

جماعت الدعوۃ کے ارکان کا احتجاج

پولیس حافظ سعید کو لاہور میں مسجدِ قدسیہ چوبرجی سے لے کر گئی اور اپنی نگرانی میں انہیں جوہر ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچایا، جہاں وہ بظاہر گھر میں نظر بند ہیں۔

پولیس کے لے جانے سے قبل حافظ سعید نے صحافیوں کو بتایا، "میری نظربندی کے احکامات غیر قانونی ہیں اور ہم ان کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔"

اے ایف پی نے بتایا کہ جماعت الدعوۃ کے تقریباً 300 ارکان نے منگل کو بعد دوپہر اسلام آباد میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا، جبکہ اتنی ہی تعداد میں افراد نے وسطی شہر ملتان میں بھی احتجاج کیا۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں، تنظیم نے عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے ساتھ ایک مشترکہ ریلی نکالی۔

جماعت الدعوۃ کے ایک مقامی رہنماء، عبدالعزیز علوی نے کہا، "حکومتِ پاکستان کو شرافت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور [حافظ سعید کو] فوراً رہا کر دینا چاہیئے۔"

تنظیم کے ایک ترجمان، ندیم اعوان نے نظربندی کے احکامات کے خلاف عدالت جانے کے منصوبے کی تصدیق کی۔

بین الاقوامی برادری کو مطمئن کرنا

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ کے چار ارکان کی گرفتاری بین الاقوامی برادری پر ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص ہے۔

تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ یہ حافظ سعید کی گھر میں نظر بندی کا پہلا عرصہ نہیں ہے، لہٰذا اس کارروائی کو ایک خالصتاً سیاسی چال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک پرانے صحافی اور تجزیہ کار، لاہور کے مبشر بخاری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "حافظ سعید کی نظربندی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ماسوائے بین الاقوامی برادری کو مطمئن کرنے کے۔"

اس بات پر شبہے کا اظہار کرتے ہوئے کہ انہیں عدالت سے سزا دی جائے گی، انہوں نے کہا، "جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کو گھر پر تحفظ دیا گیا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔"

بخاری نے کہا، "جماعت الدعوۃ کے رہنماء عدالت جائیں گے اور غالباً انہیں رہائی دے دی جائے گی جیسا کہ ماضی میں دی گئی ہے۔"

لاہور کے ایک دفاعی تجزیہ کار، پروفیسر حسن عسکری نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "نظربندی محض بین الاقوامی دباؤ کو ٹالنے کے لیے اور [۔۔۔] بین الاقوامی برادری کو یہ یقین دلانے کے لیے ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص ہے۔"

یہاں تک کہ اگر حافظ سعید اپنی نظربندی کے خلاف عدالت نہ بھی جائیں، تو عدالت کے موجودہ احکامات صرف 90 ایام کے لیے ہیں، کا اضافہ کرتے ہوئے عسکری نے کہا، "یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حافظ سعید کو گھر میں نظربند کیا گیا ہے؛ پولیس نے انہیں ماضی میں نظربند کیا تھا لیکن عدالتی حکم پر انہیں رہا کر دیا تھا۔"

انہوں نے کہا، "تین ماہ کے بعد حکومت انہیں رہا کرنے کی پابند ہے، یا اسے نظربندی کو توسیع دینے کے لیے ایک جائزہ بورڈ کو قائل کرنا پڑے گا۔"

پاکستان کارروائی کرنے کے لیے 'تیار'

پشاور کے دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے بھی اس کارروائی کو بہت زیادہ اہم بتانے پر محتاط رہنے کو کہا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ جماعت الدعوۃ کے امیر کی نظربندی دنیا پر محض یہ ظاہر کرتی ہے "کہ اگر پاکستان کو ثبوت فراہم کیے جائیں تو وہ حافظ سعید و دیگر کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔"

انہوں نے کہا، "بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایک انجمن نے پاکستان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کے خلاف کارروائی کرے، کیونکہ دونوں پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے پابندی عائد کی تھی۔"

مولانا مسعود اظہر دہشت گرد تنظیم جیشِ محمد کے بانی اور امیر ہیں۔ پاکستانی انسدادِ دہشت گردی کے حکام نے انہیں جنوری 2016 میں "حفاظتی تحویل" میں لیا تھا، لیکن مبینہ طور پر انہیں اپریل میں رہا کر دیا گیا تھا۔

شاہ نے کہا، "تنبیہ کے بعد [جماعت الدعوۃ اور ایف آئی ایف کے خلاف] کارروائی مکمل طور پر قابلِ پیشین گوئی تھی، کیونکہ پاکستان ہمیشہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے امداد پر انحصار کرتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500