کاروبار

نیشنل بینک آف پاکستان ترسیلات زر کے لئے مراعات، ہنڈی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے

جاوید محمود

پاکستانی کرنسی ڈیلروں نے 12 مارچ 2014 کو اسلام آباد میں روپے اور امریکی ڈالروں کو گِنا۔ پاکستانی حکام دہشت گردوں کی مالی امداد کے خلاف کریک ڈاون کر رہے ہیں۔ [اے ایف پی/ عامر قریشی]

پاکستانی کرنسی ڈیلروں نے 12 مارچ 2014 کو اسلام آباد میں روپے اور امریکی ڈالروں کو گِنا۔ پاکستانی حکام دہشت گردوں کی مالی امداد کے خلاف کریک ڈاون کر رہے ہیں۔ [اے ایف پی/ عامر قریشی]

کراچی ۔۔ پاکستان کا سب سے بڑا سرکاری کمرشل بینک ترسیلات زر کی بذریعہ ہنڈی یا حوالہ کی بجائے، قانونی ذرائع سے آمد کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے بینک صارفین کو مراعات کی پیشکش کر رہا ہے۔

The ہنڈی اور حوالہ کا نظٓام، جس میں رقم کی سرحد پار منتقلی دلالوں کے ذریعے انجام پاتی ہے، تاریخ میں اس کی جڑیں خاصی گہری ہیں اور ان افراد میں ہر دل عزیز ہیں جو کئی وجویات کی بناء پر بینکوں کو ناپسند کرتے ہیں۔

تاہم، ان پر سرکاری نگرانی کے فقدان اور ٹیکس سے ان کے اجتناب کے باعث ان حکام کو تشویش لاحق ہے، جو روپے کی قدر کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں اور دہشت گردی کی مالی امداد کا گلا گھونٹنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

ترسیلات زر کی مہم

نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) ہنڈی اور حوالہ کے خطرات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے اور بینک کو ازخود ترسیلات زر کی منتقلی کو فروغ دینے کی کوشش کی قیادت کر رہا ہے۔

ارتضاء کاظمی (سیکنڈ لیفٹیننٹ)، نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی)کے ہوم گلوبل ترسیلاتِ زر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، جنوری کے اوائل میں جدہ میں سعودی بینکاروں کے ساتھ تصویر اترواتے ہوئے۔ نیشنل بینک آف پاکستان اور پاکستانی حکومت دہشت گردوں کی مالی امداد کا گلا گھونٹنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ [ تصویربشکریہ جاوید محمود]

ارتضاء کاظمی (سیکنڈ لیفٹیننٹ)، نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی)کے ہوم گلوبل ترسیلاتِ زر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، جنوری کے اوائل میں جدہ میں سعودی بینکاروں کے ساتھ تصویر اترواتے ہوئے۔ نیشنل بینک آف پاکستان اور پاکستانی حکومت دہشت گردوں کی مالی امداد کا گلا گھونٹنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ [ تصویربشکریہ جاوید محمود]

"ہم صرف مراعات کی پیشکش ہی نہیں کر رہے بلکہ ملک کے اندر اور بیرونِ ملک موجود این بی پی کے صارفین تک سائی حاصل کرنے اور انھیں این بی پی کے ذریعہ رقم وطنِ عزیز میں بھیجنے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔" ارتضاء کاظمی، بینک کے ہوم گلوبل ترسیلاتِ زر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔

این بی پی نے اپنے اس افتتاحی اقدام کو فروغ دینے کے لئے مختلف طرح کی صارفین آگاہی اور اشتہاری مہمات کا آغاز کر دیا ہے۔

اس میں گاہکوں کی مدد کرنے کے لئے ھیلپ ڈیسک کا قیام ، سعودی عرب، متحدہ امارات اور دیگر ترسیلاتِ زر راہداریوں میں موجود بینک صارفین کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنا، اور بینک کے صارفین کو بذریعہ لاٹری پر تعیش تحائف جیتنے کی پیش کش کرنا شامل ہیں، کاظمی نے کہا۔

جبکہ یہ مہم مکمل طور پر این بی پی کا افتتاحی اقدام ہے، انہوں نے کہا، دیگر بینک پاکستان میں ترسیلات زر کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرنے کے لئے شامل ہو سکتے ہیں۔

'ترقی کے وسیع امکانات'

قانونی ذرائع سے ترسلاتِ زر کی آمد میں سہولت کے لئے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، منسٹری آف اوور سیز پاکستانیز اور وزارتِ خزانہ نے ایک مشترکہ پاکستان ریمیٹنس انیشیئیٹیو (پی آر آئی) نامی افتتاحی اقدام کا آغاز کیا ہے۔

ہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان پی آر آئی، غیر ملکی سفارت خانوں اور متعلقہ وزارتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ سمندر پار پاکستانیوں کو رقوم کی منتقلی کے لئے قانونی ذرائع استعمال کرنے کی تعلیم دی جا سکے"، کاظمی نے کہا۔

اس سے نا صرف ہمارے کاروبار میں اضافہ ہو گا بلکہ ہمیں پاکستان کے ترسیلات زر کے حجم کو بڑھانے میں بھی مدد فراہم ہو گی، جس کا حجم فی الوقت 20 ارب ڈالر ہے" انہوں نے کہا۔

کاظمی کے مطابق ترسیلات زر 2015-2016 میں 2 بلین امریکی ڈالر بڑھی تھیں، بمقابلہ 2014-2015 جب ترسیلات کُل 18 ارب امریکی ڈالر تھیں.

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں" انھوں نے کہا۔

قانونی ترسیلات زر 40 بلین امریکی ڈالر سالانہ سے زائد یا دوہری سطح پر برقرار ہوتی ہیں، کیونکہ ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے منتقل ہونے والی رقم، قانونی ذرائع سے بھیجی جانے والی رقم کے تقریباً برابر ہیں، کاظمی نے کہا.

بینک صارفین کے تعداد میں اضافہ

کاظمی کے مطابق پاکستانی آبادی کے صرف 15 فیصد کے پاس ہی بینک اکاؤنٹس ہیں. اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور حکومت اس سلسلہ میں کچھ تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہدف یہ ہے کہ بینکاری معیشت میں شرکت کرنے والی آبادی کے شرح فی صد میں اضافہ کیا جائے، انھوں نے کہا۔

این بی پی اس مالی شمولیت کے مقصد کے حصول کے لئے پاکستان بھر میں، بشمول دور دراز شہروں اور قصبوں کہ جہاں واحد این بی پی بینکاری ہی موجود ہے، بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے 1400 سے زائد شاخوں پر مشتمل منتشر نظام کے ذریعے کام کر رہا ہے، کاظمی نے کہا۔

بینک کا ترسیلات زر کا نظام اور شاخ کے تمام نیٹ ورک صارفین کے لئے بینکاری کے تجربہ میں سہولت فراہم کرنے کے لئے آن لائن ہیں، انہوں نے کہا۔

پاکسان میں ترسیلاتِ زر کے شعبہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنچ عوام کے درمیان قانونی بینکاری کے ذرائع کی موجودگی کے بارے میں شعور کو اجاگر کرنا ہے، کاظمی نے کہا۔

رقم منتقل کرنے والے افراد ہنڈی اور حوالہ کی طرف سے پیش کش کیے جانے والی سہولیات کے باعث خود بخود انکی طرف کچھے چلے جاتے ہیں، انھوں نے کہا، لیکن وہ لوگ رقم کی اس غیر قانونی منتقلی کے منفی پہلو سے نا واقف ہوتے ہیں۔۔ جو کہ انسانی تجارت، اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور بین الاقوامی دہشت گردی کے لئے مالی امداد فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔

"لہذا، وہ لوگ جو غیر قانونی طریقوں سے رقم بھیجتے ہیں نا دانستہ طور پر ایسی سرگرمیوں کی حمایت کر رہے ہوتے ہیں،" انھوں نے کہا۔

قانونی ترسیلِ زر کے فوائد

کراچی کے ایک سینیئر مالیاتی تجزیہ کار اور ایک بروکریج ہاؤس کے سابق سی ای او سعد بن نصیر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”تارکینِ وطن پاکستانیوں کی جانب سے قانونی ذرائع سے غیرملکی کرنسی کی منتقلی ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر اور دیگر کرنسیوں کے مقابلہ میں پاکستانی کرنسی کو مستحکم کرتی ہے۔ یہ سرمایہ کے انخلاء اور ہنڈی جیسی غیر قانونی سرگرمیوں اور عسکریت پسندی جیسی مجرمانہ سرگرمیوں کی بھی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔“

اکتوبر 2013 میں پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 7 بلین ڈالر سے نیچے تک گر گئے، جو کہ بمشکل چھ ہفتے کی درآمدات کے برابر تھے، اس سے دولت کا تیزی سے انخلاء شروع ہو گیا اور دیگر کرنسیوں کے مقابلہ میں روپیہ کی قدر زد پذیر ہو گئی۔

تاہم حکومت نے اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کیے، جن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ قرض کے معاہدوں پر دستخط اور ہنڈی نظام پر کریک ڈاؤن کرنے کے دیگر اقدامات شامل ہیں۔

نصیر نے کہا کہ پالیسیوں کے اس سیٹ نے گزشتہ اکتوبر تک ذخائر کو بتدریج بڑھا کر 24 بلین ڈالر تک پہنچا دیا، جو کہ اب تک کے بلند ترین ہیں۔

انہوں نے کہا، ”اگر دیگر بینک این بی پی کی طرح اقدامات کریں، تو رزِ مرسلہ اور [زرِ مبادلہ] کے ذخائر سوچ سے بھی زیادہ بڑھائے جا سکتے ہیں۔“

ہنڈی کے نقصانات

کراچی میں روزنامہ پاکستان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر مبشر میر نے کہا، ”ہنڈی نظام روپیہ کو غیر مستحکم کرتا ہے، کرنسی کی سمگلنگ، انسانی سمگلنگ اور سرمایہ کے انخلاء کو فروغ دیتا ہے، اور غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری اور معیشت پر بھی منفی طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں القاعدہ اور طالبان نے غیر قانونی ذرائع سے پیسہ وصول کیا ہے، بینک دولت پاکستان اور نجی بینکوں نے مالیاتی ضوابط کو سخت تر کر دیا ہے۔

میر نے تجویز دی کہ حکومت، سیکیورٹی اداروں، اور ریاستی اور نجی بینکوں کو غیر قانونی ترسیلِ زر میں ملوث افراد کی شناخت اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دینی چاہیئں۔

انہوں نے کہا، ”ہنڈی کے تسہیل کاروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کے بغیر پیسہ کی اسمگنگ، انسانی اسمگلنگ، منشیات کی تجارت اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پانا مشکل ہو گا۔“

انہوں نے کہا کہ ہنڈی نظام کے خاتمہ سے عسکریت پسندوں کو غیرملکی مالی امداد کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور پاکستان کی انسدادِ دہشتگردی کی کاوشوں کو تقویت ملے گی۔

انہوں نے کہا، ”انسدادِ دہشتگردی کے اقدامات کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان میں غیرقانونی ترسیلِ ذر کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا جانا چاہیئے۔“

میر نے کہا، ”لاکھوں پاکستانی قانونی ذرائع سے زرِ مرسلہ وصول کر رہے ہیں اور اس پیسے کو قانونی طریقہ سے استعمال کر رہے ہیں، جو بالآخر ہر برس قومی کاروبار اور معاشی ترقی میں کردار ادا کرتا ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پاکستان سے ایک دفعہ میں کتنے ڈالر بھیجے جا سکتے ہیں۔ اور اسے دائرۂ قانون میں کیسے لایا جائے۔

جواب

ہمیں پتہ ہی نہیں ہے ہنڈی کیا ہے یا بنک میں پیسے کیسے بہجنے ہیں ہم ادھر بنک میں جانے ہیں پیسے جمع کرنے کے بعد وہ 1 کوڈہمیں دیتے ہیں وہ گھر والوں کو دیتے اور کوڈ بنک میں دے کے پیسے مل جاتے ہیں یہا سب یہی طریقہ سے پیسے بھجواتے ہیں یہ کیا ہے مجھے تو نہیں پتہ براے کرم آگاہ کریں تاکہ ہم قانونی طریقے سے پیسے بھجوائے میرے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی فائدہ ہو

جواب

برائے مہربانی بیرونِ ملک تمام پاکستانیوں کو ان کے مقامی اخبارات کے ذریعے آگاہ کرنے کی کوشش کریں کہ کس طرح پاکستان رقوم بھیجی جائیں۔ لوگوں کی اکثریت بینک ٹرانسفر سے آگاہ ہی نہیں۔ وہ مختلف دیگر طریقوں سے ارسال کرتے ہیں۔ برائے مہربانی اسے اشتہار نہیں بلکہ خبر بنائیں تاکہ مقامی اخبار چارج نہ کر سکیں۔ مقامی کاؤنسل خانے کے ذریعے آسان معلومات ارسال کریں.

جواب