تعلیم

دہشت گردی کے خدشات کے پیشِ نظر پنجاب میں اسکولوں کی سیکیورٹی میں اضافہ

آمنہ ناصر جمال

6 نومبر کو لاہور میں چوتھی جماعت کے طالبِ علموں کی تصویر۔ والدین اور اسکولوں کے اساتذہ کی جانب سے بڑھتے ہوئے مطالبات کے بعد پنجاب صوبائی حکومت اسکولوں کی سیکیورٹی میں اضافہ کر رہی ہے۔ [آمنہ ناصر جمال]

6 نومبر کو لاہور میں چوتھی جماعت کے طالبِ علموں کی تصویر۔ والدین اور اسکولوں کے اساتذہ کی جانب سے بڑھتے ہوئے مطالبات کے بعد پنجاب صوبائی حکومت اسکولوں کی سیکیورٹی میں اضافہ کر رہی ہے۔ [آمنہ ناصر جمال]

لاہور — پنجاب کے سیکریٹری تعلیم عبدالجبار شاہین کے مطابق پنجاب کے سرکاری اسکول 4,000 سے زائد سیکیورٹی گارڈز کی بھرتیوں سے مستفید ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسکولوں کی سیکیورٹی میں اضافہ طویل عرصہ سے والدین اور اساتذہ کا مطالبہ رہا ہے۔

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مسلح افراد کی جانب سے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں 141 افراد، جن میں زیادہ تر بچے تھے، کو قتل کیے جانے کے بعد ان خدشات کی قوتِ رفتار میں اضافہ ہوا تھا۔

سکول سے آتے اور جاتے ہوئے راستے میں تاوان یا خود کش حملوں میں استعمال کے لیے طالبان کے ہاتھوں بچوں کے اغوا نے والدین کے خدشات کو مزید بڑھا دیا اور حکومت سے اپنے بچوں کے تحفظ کے مطالبات میں اضافہ کر دیا۔

شاہین نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”والدین اپنے بچوں کی سلامتی سے متعلق فکرمند تھے۔“

انہوں نے کہا، ”پنجاب کے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی تجویز پر محکمۂ مالیات نے [سیکیورٹی گارڈز کے لیے] 4,120 نئی ملازمتیں تشکیل دینے کی منظوری دے دی ہے۔“

پہلے مرحلے میں یہ گارڈز بی زمرہ کے اسکولوں میں تعینات کیے جائیں گے، جن کی تعریف شہری علاقوں کے ان اسکولوں کے طور پر کی جاتی ہے جن میں 200 یا اس سے زائد طالبِ علم ہوتے ہیں۔ بعدازاں دیگر اسکولوں میں سیکیورٹی کی فراہمی کے لیے بھرتی کو وسیع کیا جائے گا۔

اسکولوں کی سیکیورٹی میں اضافہ

اس مسئلہ سے متعلق بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کی وجہ سے قانون ساز اسکولوں میں تحفظ کو یقینی بنانے اور اغوا کے خاتمہ کے لیے اقدامات کو اجاگر کر رہے ہیں۔

گزشتہ اگست لاہور کی عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے اسکولوں کی انتظامیہ کو اس امر کو یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ سیکیورٹی گارڈ اسکول وینز کا پہرہ دیں اور یہ کہ پولیس اسکولوں سے بچوں کو لانے اور لے جانے والی ویگنوں کی نگرانی کرے۔

شاہین نے کہا، ”حکومت طالبِ علموں کے تحفظ اور جسمانی سلامتی میں اضافہ اور نفاذِ قانون اور نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ معاونت میں اضافہ کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔“

صوبائی حکومت کے مطابق، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں 52,314 سرکاری اسکول ہیں۔ ہر ضلعی حکومت ان گارڈز کی تنخواہیں ادا کرے گی۔

پنجاب میں نجی اسکولوں کی تعداد نامعلوم ہے کیوں کہ متعدد حکام کے ساتھ اندراج نہیں کرواتے۔ نجی اسکولوں کے مالکان سکولوں کے گارڈ بھرتی کرتے اور انہیں ادائیگی کرتے ہیں۔

والدین کے خدشات میں تخفیف

اسکولوں کے منتظمین اور والدین کاکہنا ہے کہ پنجاب کے سرکاری اسکولوں میں سیکیورٹی پہلے ہی سے بہتر ہو گئی ہے۔

گارڈن ٹاؤن، لاہور کے ایک سرکاری اسکول کی منتظم صفیہ مہر نے کہا، ”ہمارے سرکاری اسکول نے متعدد طریقوں سے اپنی سیکیورٹی میں اضافہ کیا ہے۔ ہم نے ایسے تمام داخلی مقامات، جن کی نگرانی نہیں ہوتی، کو مقفل کر کے املاک تک رسائی کو محدود کرنے کا آغاز کر دیا ہے اور آنے والے تمام افراد سے مرکزی دروازے سے داخل ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کے عملہ نے معمول سے کیمپس کے باہر اور اندر سیکیورٹی معائنہ اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع سکول حکام یا پولیس کو دینے کا آغاز کر دیا ہے۔

لوئر مال، لاہور میں سنٹرل ماڈل ہائی اسکول میں ایک 11 سالہ لڑکے کی والدہ صابرہ صداقت نے کہا، ”اغوا اور دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے اسکولوں کی سیکیورٹی سے متعلق عوام میں خدشات پیدا کر دیے ہیں۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اضافی سیکیورٹی اقدامات سے قبل، والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے عدم اطمینان محسوس کرتے تھے۔

انہوں نے کہا، ”اپنے ہی اسکولوں میں طالبِ علموں کا غیر محفوظ محسوس کرنا بھی اس امر کی ایک وجہ ہے کہ حال ہی میں سرکاری اسکولوں میں سیکیورٹی اقدامات میں اضافہ ہوا ہے۔“

طلبا کی ذہنی صحت سے متعلق خدشات

لیکن لاہور کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر ناصر سعید خان نے اسکولوں میں سیکورٹی اہکاروں کی اضافی موجودگی پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، درحقیقت،پاکستان میں ہر بچہ جانتا ہے کہ تعلیم محصور ہے۔

"سرکاری اسکولوں کے طلبا کو بہت سے نئے قواعد و ضوابط کا پابند کیا جارہا ہے جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی پست ہوتی ہے،" انہوں نے بتایا۔ "طلبا یہ سوچ سکتے ہیں کہ حد سے زیادہ پابند ماحول نے ان کی تخلیقی صلاحیت، انفرادیت اور شعور کی ترقی سلب کرلی ہے۔"

انہوں نے بتایا، مزید یہ کہ دہشت گردوں کے حملے یا دیگر دہشت انگیز واقعات دیکھنے کے بعد پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس کا شکار بچوں کو صرف اضافی حفاظتی انتظامات نہیں بلکہ اضافی نفسیاتی مدد بھی درکار ہوتی ہے۔

خان نے، آفت یا دہشت گردی کے واقعے کے بعد ذہنی صحت کی خدمات کے ضرورت مند بچوں کی شناخت، جانچ اور ریفر کیے جانے کے لئے جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق کارکنان کے تربیتی مواقعوں میں اضافے کی تجویز دی۔

'ناگزیر' اضافی سیکورٹی

اسٹیشن ہاؤس افسر، گارڈن ٹاؤن، مظفر نے بتایا، سیکورٹی میں اضافہ ناگزیر ہے کیونکہ سرکاری اسکولوں میں دہشت گردی کا مسلسل خطرہ ہے۔

"سرکاری اسکولوں میں قانون نافذ کرنے والے افسران اور نجی سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "تیئیس فیصد اسکولوں نے پولیس یا سیکورٹی اہلکاروں کی روزانہ 6 سے 7 گھنٹے اسکول میں موجودگی کی اطلاع دی ہے۔"

پولیس اور نجی سیکورٹی گارڈ دیگر فرائض کے علاوہ مختلف امور انجام دیتے ہیں جیسے، اسکول کے میدان کا گشت، اسکول کے عملے کی تفتیش میں معاونت اور تلاشیاں لینا۔

اسکول کے افسران کو اپنے اسکول میں پیش آنے والے مخصوص مسائل کی شناخت کرنی چاہیئے اور حفاظتی اقدامات لینے سے پیشتر تعین کرنا چاہیئے کہ انھیں کس طرح معقولیت سے حل کیا جائے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

میں دنیا میں ہونے والی تازہ ترین تقریبات سے مربوط ہونا چاہتا ہوں۔

جواب