معیشت

ازبکستان، پاکستان انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے، تجارت بڑھانے کے لیے پُرامید

از ماکسیم یینیشیف

سنہ 2015 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ پر ایک ڈرائیور اپنی دستاویزات پاکستانی اہلکار کے حوالے کرتے ہوئے۔ ازبکستان طورخم پر ازبکستانی سامانِ تجارت پر تیز تر کارروائی کے لیے پُرامید ہے۔ [ماکسیم یینیشیف کی حاصل کردہ اے ڈی بی کی فوٹو]

سنہ 2015 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ پر ایک ڈرائیور اپنی دستاویزات پاکستانی اہلکار کے حوالے کرتے ہوئے۔ ازبکستان طورخم پر ازبکستانی سامانِ تجارت پر تیز تر کارروائی کے لیے پُرامید ہے۔ [ماکسیم یینیشیف کی حاصل کردہ اے ڈی بی کی فوٹو]

تاشقند -- ازبکستان اور پاکستان کی حکومتوں نے کہا ہے کہ دونوں ممالک نے کئی شعبوں، بشمول انتہاپسندی کے خلاف جنگ اور تجارتی حجم میں اضافہ کرنے میں تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

23 دسمبر کو اسلام آباد میں ازبکستانی حکام بشمول نائب وزیرِ اعظم الوغبک روزوکولوف کی میزبانی کرتے ہوئے، پاکستانی صدر ممنون حسین نے کہا کہ دونوں ممالک انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کریں گے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایک بیان کے مطابق، ممنون حسین نے کہا کہ پاکستانی عوام اور فوج "نے دہشت گردی کے مسئلے سے بہادری سے نمٹا ہے اور اس کے نتیجے میں اس عفریت پر بہت حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔"

بیان کے مطابق، ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان اور ازبکستان اعتماد، ثقافت اور جغرافیائی یکسانیت کے لحاظ سے ایک ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔

ازبکستانی نائب وزیرِ اعظم الوغبک روزوکولوف (بائیں) اور پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے 23 دسمبر کو اسلام آباد میں تجارت کو فروغ دینے اور انتہاپسندی کے خلاف لڑنے کے بارے میں مشاورت کی۔ [ماکسیم یینیشیف کی حاصل کردہ پاکستانی حکومت کی فوٹو]

ازبکستانی نائب وزیرِ اعظم الوغبک روزوکولوف (بائیں) اور پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے 23 دسمبر کو اسلام آباد میں تجارت کو فروغ دینے اور انتہاپسندی کے خلاف لڑنے کے بارے میں مشاورت کی۔ [ماکسیم یینیشیف کی حاصل کردہ پاکستانی حکومت کی فوٹو]

ان کے سلامتی کے امور پر مزید تعاون کے منصوبوں کی تفصیلات دستیاب نہیں ہوئیں۔

سلامتی کے مشترکہ خدشات

اگرچہ دونوں ممالک کی سرحد مشترک نہیں ہے، دہشت گردی اور انتہاپسندی پر ان کے خدشات ایک جیسے ہیں۔

سنہ 1990 کی دہائی میں ازبک جنگجوؤں کی جانب سے قائم کردہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) افغانستان اور پاکستان میں مصروفِ عمل ہے، تاہم گزشتہ دو برسوں میں دونوں ممالک میں یہ بہت کمزور ہو چکی ہے۔

تاشقند کے مقامی پولیٹیکل سائنسدان امید اسد اللئیف نے کاروان سرئے کو بتایا، "شمالی وزیرستان بہت برسوں سے آئی ایم یو کے جنگجوؤں کی پناہ گاہ رہا ہے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں وہ اپنے دہشت گردی کے منصوبے بنایا کرتے تھے اور وہاں سے افغانستان میں کارروائیاں کرتے تھے۔"

آئی ایم یو اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں، دونوں کا القائدہ کے ساتھ الحاق تھا، نے 8 جون 2014 کو کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مشترکہ خونریز حملہ کیا تھا۔

حملے سے اگلے ہفتے، پاکستانی فوج نے افغان سرحد کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں پر متواتر ہوائی حملے کیے تھے، جن میں ازبکوں، افغانوں اور پاکستانیوں سمیت درجنوں عسکریت پسند مارے گئے تھے۔

اس مہم کا اختتام 15 جون کو شمالی وزیرستان میں غیر ملکی جنگجوؤں کی آٹھ پناہ گاہوں پر ہوائی بمباری پر ہوا تھا، جس میں مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، کم از کم 105 باغی مارے گئے تھے، جن میں اکثریت ازبکوں کی تھی، بشمول وہ جو ہوائی اڈے پر حملے میں ملوث تھے۔

عسکری ذرائع کے مطابق، ایک اہم ازبک کمانڈر اور حملے کا منصوبہ ساز، ابو عبدالرحمان علمانی اس کارروائی میں مارا گیا تھا۔

اسی روز، پاکستانی فوج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا، جو قبائلی علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی کا ایک جامع آپریشن ہے اور تاحال جاری ہے۔

اسد اللئیف نے کہا، "آپریشن ضربِ عضب کے دوران پاکستانی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پاکستان میں [آئی ایم یو] کا خاتمہ کیا تھا۔

سرحد پار افغانستان میں، نومبر 2015 میں جنگجو گروہوں کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے بھی آئی ایم یو تقریباً نیست و نابود ہو گئی تھی۔

اپنے سابق اتحادی کے اپنے حریف "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کے ساتھ مل جانے سے ناراض، افغان طالبان نے، آئی ایم یو کے یونٹ کا صوبہ زابل میں محاصرہ کیا اور اسے جنگ میں کچل ڈالا۔ اس شکست کے بعد نہ تو اس وقت آئی ایم یو کے سربراہ عثمان غازی کے بارے میں کچھ سننے میں آیا، نہ ہی اس کے بعد آئی ایم یو افغانستان میں ایک عامل رہی ہے۔

پاکستان کی جانب سے مزید تجارت کا مطالبہ

اقتصادی تعلقات میں اضافہ بھی دونوں ممالک کے مفاد میں اہمیت کا حامل ہے۔

23 دسمبر کو روزوکولوف کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں، ممنون حسین نے توانائی، انسانی وسائل اور دیگر اقتصادی شعبوں میں ازبکستان کے ساتھ مزید تعاون کی خواہش پر زور دیا تھا۔

پاکستانی وزیرِ تجارت خرم دستگیر خان نے اسلام آباد میں ایک روز پہلے روزوکولوف کو بتایا تھا کہ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان "بہت زیادہ تجارتی امکانات ہیں۔"

ایک پریس بیان کے مطابق، انہوں نے کہا، "پاکستان اور ازبکستان لازماً زراعت، دوا سازی، ٹیکسٹائل اور کھیلوں کی مصنوعات میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کریں۔"

بیان میں کہا گیا کہ سال 16-2015 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم 3.9 ملین ڈالر تک پہنچ گیا تھا، جو کہ سنہ 15-2014 میں 3 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ تھا۔

اسد اللئیف نے کہا، "یہ اعدادوشمار ایسے بڑے ممالک کے لیے بہت ہی معمولی ہیں۔ موازنے کے لیے، سنہ 2015 میں ازبکستان اور افغانستان کی تجارت کا حجم 445.5 ملین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ لہٰذا، حکام موجودہ مسائل کو حل کرنے اور تجارت کے لیے دوستانہ ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

نشوونما میں حائل چند مسائل میں براہِ راست تجارتی روابط کی کمی اور محفوظ اور براہِ راست زمینی راستوں کی کمی اور بہت زیادہ قانونی رکاوٹیں شامل ہیں، کا اضافہ کرتے ہوئے، 22 دسمبر کی کانفرنس میں خان نے کہا، "رکاوٹیں اور مسائل موجود ہیں، لیکن ہمیں رکاوٹوں کو ہٹانے اور تجارت میں سہولت کاری کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔"

جنگ سے تباہ حال افغانستان اور پہاڑی تاجکستان ازبکستان اور پاکستان کے درمیان حائل ہیں۔

تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ منصوبے

روزوکولوف کی پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو متحرک کرنے کی کئی کوششوں پر منتج ہوئی، جن کی مجموعی آبادی تقریباً 210 ملین ہے۔

دی ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق، دورے کے دوران، ازسانوٹیکسپورٹ -- ازبکستانی برآمداتی کارپوریشن برائے انجینئرنگ و کیمیائی مصنوعات -- اور کسب گروپ -- ایک پاکستانی فرم -- نے پاک-ازبک ٹریڈ ہاؤس قائم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔

اس وقت Podrobno.uz نے اطلاع دی تھی کہ اس ادارے کا مقصد ازبکستانی کپاس- اور گندم کی کٹائی کے آلات پاکستان کو برآمد کرنے میں آسانی پیدا کرنا ہے۔

یہ بتاتے ہوئے کہ تجارتی سامان کو طورخم پر اجازت ملنے کے لیے تین ہفتے تک کا وقت درکار ہوتا ہے، دی ایکسپریس ٹریبیون نے کہا، تاہم، ازبکستانی زرعی آلات افغانستان کے ذریعے زمینی راستے سے پہنچانا ابھی بھی تجارتی شراکت داروں کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان طورخم سرحد پر "سرخ فیتے" سے نمٹنے پر مجبور کرے گا۔

دسمبر کے وسط میں پاکستان کے وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پاکستان میں ازبک سفیر فرکات صدیقوف کو بتایا تھا، "پاکستان اور ازبکستان کو براہِ راست ریلوے اور ہوائی روابط قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیئے۔"

سعد رفیق نے کہا کہ ایک امکان کراچی، پاکستان سے جلال آباد، افغانستان تک ایک ریلوے لائن کی تعمیر کرنا ہے، تاہم پشاور، پاکستان کے مغرب میں افغان علاقے میں کبھی بھی کوئی ریلوے موجود نہیں رہی ہے۔

تاہم ازبکستان کی بنائی ہوئی ایک ریلوے پہلے ہی سے ازبکستان کو مزارِ شریف، افغانستان کے ساتھ منسلک کرتی ہے۔ ریل کے ذریعے مزارِ شریف اور جلال آباد کو منسلک کرنا، اگر افغانی سلامتی کسی دن یہ اجازت دے، وسطی ایشیاء اور جنوب مغربی ایشیاء کے درمیان مختصر ترین ریلوے بنائے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

طائرانہ نظر کا اچھا مقالہ ہے، لیکن ”دہشتگردی کے خلاف جنگ“ پر مزید ضرورت ہے۔ اس پر دونوں ممالک کا نہایت وسیع اندازِ نظر ہے، جس کا نتیجہ اکثر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

جواب