جرم و انصاف

پنجاب پولیس مجرموں، دہشت گردوں کے اعداد و شمار کو ڈیجیٹل شکل دے رہی ہے

آمنہ ناصر جمال

لاہور پولیس نے 17 دسمبر کو ذرائع ابلاغ کے سامنے گرفتار شدہ ملزمان اور جمع کیے جانے والے شواہد کو پیش کیا۔ لاہور پولیس نے فنگر پرنٹس، تصاویر اور 250,000 سے زیادہ مجرموں اور عسکریت پسندوں کے بارے میں دیگر تفصیلات کو ڈیجیٹل شکل دے دی ہے۔] آمنہ ناصر جمال[

لاہور پولیس نے 17 دسمبر کو ذرائع ابلاغ کے سامنے گرفتار شدہ ملزمان اور جمع کیے جانے والے شواہد کو پیش کیا۔ لاہور پولیس نے فنگر پرنٹس، تصاویر اور 250,000 سے زیادہ مجرموں اور عسکریت پسندوں کے بارے میں دیگر تفصیلات کو ڈیجیٹل شکل دے دی ہے۔] آمنہ ناصر جمال[

لاہور - پنجاب پولیس مجرموں کو سزا دلانے میں مدد کے لیے تمام مجرمان اور دہشت گردوں کے بارے میں اعداد و شمار کو ڈیجیٹل شکل دینے کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ بات پولیس کے حکام نے پاکستان فارورڈ کو بتائی۔

پولیس جو کئی مہینوں سے کام کر رہی ہے، نے 260,000 سے زیادہ مجرموں کے فنگرپرنٹس، تصاویر اور دیگر متعلقہ تفصیلات کو کرمنل ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم میں داخل کیا ہے۔ یہ بات انفرمیشن ٹیکنالوجی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل راشد حنیف نے 17 دسمبر کو لاہور میں اعلی درجے کے پولیس اہلکاروں سے میٹنگ کے دوران کہی۔

انہوں نے مزید کہا کہ باقی کے اعداد و شمار کو داخل کرنے کا کام ترجیحی بنیادوں پر جاری ہے۔

1.2 ملین ملزمان کے بارے میں اعداد و شمار جمع کیے گئے

سکھیرا نے کہا کہ یہ بات نہایت اہم ہے کہ اعداد و شمار کو سینٹرلائزڈ مانیٹرنگ روم میں رکھے جانے والے اعداد و شمار سے ملایا جائے کیونکہ مجرموں کی مکمل مجرمانہ تاریخ کو قائم رکھنے سے ایسے مجرموں کو سزا دینے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس نظام کو آہستہ آہستہ عدالتوں، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور صوبائی محکمہ جیل کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ "جرائم سے لڑنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے اپنے اقدامات کے حصہ کے طور پر اور ایک محفوظ اور مستحکم شہر بنانے کے لیے، ہم ایسے نظام کو نافذ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو ہمیں حقیقی وقت میں مجرموں کے بارے میں معلومات کو نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر پولیس کے ڈپارٹمنٹس میں سانجھا کرنے کو ممکن بنائے۔ اس کا نتیجہ بہتر تفتیشی طریقہ ہائے کار، جرائم کے انسداد اور مجرموں، ملزمان اور بار بار جرم کرنے والوں کی بہتر ٹریکنک ممکن ہو سکے گی۔ اس سے ریکارڈ میں ہاتھ سے معلومات ڈالنے کے نتیجنے میں ہونے والی غلطیوں میں بھی کمی آئے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "اس نظام میں، بائیو میٹرک تصدیق کو بھی ڈالا گیا ہے تاکہ انگھوٹے کے نشان سے مجرموں کی شناخت ہو سکے"۔

لاہور اور پنجاب میں پولیس ملزمان اور مجرمان کے اعداد و شمار کو آسانی سے رسائی رکھنے والی کمپوٹر فائلوں میں ڈالنے میں مصروف رہا ہے جس سے فائلوں کی الماریوں میں کاغذوں پر موجود بوجھل ریکارڈ سے چھٹکارہ مل جائے گا۔

پی آئی ٹی بی کی پریس ریلیز کے مطابق، لاہور پولیس نے حال ہی میں ایسے ملزمان کے فنگر پرنٹس کی چھانٹی کا کام مکمل کیا ہے جنہیں خودکار فنگرپرنٹس معلوماتی نظام (اے ایف آئی ایس) کو پنجاب انفرمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کے تعاون کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے گزشتہ دیہائی کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔

پنجاب کرائم رجسٹریشن آفس (سی آر او) کے سپریٹنڈنٹ پولیس عمر ریاض چیمہ نے کہا کہ پولیس سارے صوبے تک پہنچنے کے لیے اس منصوبے کے وسیع کر رہی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "پنجاب فنگرپرنٹس بیورو کی طرف سے فراہم کیے جانے والے ملین ملزمان کے 1.2 اعداد و شمار کو اس نظام میں شامل کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے اے ایف آئی ایس کو استعمال کرتے ہوئے 200,000 فنگرپرنٹس کو اسکین کرنے کا کام مکمل کر لیا ہے"۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اے ایف آئی ایس پولیس اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی طرف سے استعمال کیا جانے والا سافٹ ویئر ہے جسے فنگرپرنٹس کو استعمال کرنے اور الگ الگ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

چیمہ نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ پنجاب پولیس کے شعبوں کو جوڑ دے گا اور تمام اضلاع کو مجرموں کے اعداد و شمار کے لیے اے ایف آئی ایس کے ڈیٹا بیس تک رسائی کو ممکن بنائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سی آر او مجرموں کے ڈی این اے کے نمونوں کا ڈیٹا بیس بنانے کا ایک اور منصوبہ رکھتا ہے۔

دہشت گردی کو کنٹرول کرنا اور مجرموں کو ڈھونڈنا

پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "حکومت دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جامع قومی ایکشن پلان (این اے پی) کا آغاز 2014 میں دہشت گردی سے جنگ کے لیے کیا تھا جس میں دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری کو روکنا بھی شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ "سیکورٹی ایجنسیوں کی توجہ دہشت گردوں کو پکڑنے پر مرکوز ہے۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف این اے پی کے تحت بروقت اور موثر اقدامات کیے گئے ہیں اور ہم حوصلہ افزاء نتائج دیکھ رہے ہیں"۔

پی آئی ٹی بی کے چیرمین عمر آصف نے کہا کہ پی آئی ٹی بی اگلے چند مہینوں میں پنجاب کے تمام 709 پولیس اسٹیشنوں میں ریکارڈ کو خودکار بنا رہی ہے۔ اس وقت یہ نظام پنجاب کے 228 پولیس اسٹیشنوں میں مکمل طور پر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اسٹیشنوں میں پی آئی ٹی بی کے منتخب کردہ حکام، تمام جرائم کے اعداد و شمار کو مرکزی ڈیٹا بیس میں ڈالنے کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نظام شفافیت کو بڑھانے میں مدد کرے گا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "جرائم کی تفتیش کے بارے میں روایتی طریقہ کار عام طور پر بہت وقت مانگتا ہے اور اکثر عمومی طور پر غیر موثر ہوتا ہے۔ دوسری طرف، مجرموں کے ریکارڈز کے انتظام اور جرائم کی تفتیش کے لیے کمپیوٹر کا استعمال بہت زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے کیونکہ پولیس کو خودکار نظام کی وجہ سے جرائم کی تفتیش پر کم وقت صرف کرنا پڑتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کا یہ وقت بچانے کا مطلب "درست اور قابل بھروسہ تفتیش" ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل الطاف حسین نے کہا کہ "ضمانت مقرر کرنے اور قید کے بارے میں اندازہ لگانے اور اس کے ساتھ ہی پولیس کو مقدمے کے بارے میں تازہ ترین معلومات دینے کے ججوں کے کام کے لیے مکمل مجرمانہ تاریخ کے ریکارڈ کا ہونا بہت اہم ہے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "دنیا بھر میں عوامی حفاظت میں مدد فراہم کرنے کے لیے کرمنل جسٹس سسٹم نے فنگرپرنٹس پر انحصار کیا ہے"۔

ریکارڈ رکھنے کا خودکار نظام اس وقت کراچی، صوبہ سندھ میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500