دہشتگردی

کراچی میں پولیس آپریشن عسکریت پسندوں کے خلاف کامیابی کو وسیع کر رہا ہے

از ضیاء الرحمان

طالبان جنگجوؤں کے خلاف ایک کارروائی میں شرکت کرنے کے لیے کراچی پولیس 8 دسمبر کو ایک تھانے میں جمع ہوتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

طالبان جنگجوؤں کے خلاف ایک کارروائی میں شرکت کرنے کے لیے کراچی پولیس 8 دسمبر کو ایک تھانے میں جمع ہوتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- کراچی میں طالبان جنگجوؤں کے نیٹ ورک کو ہلا کر رکھ دینے کے بعد، قانون نافذ کرنے والے ادارے گروہ کی شہر کے مکینوں کو خوفزدہ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔

مبصرین اور پولیس حکام کا کہنا ہے کہ برسوں سے، حکام نے کراچی کو دہشت گردوں کے سرمایہ اکٹھا کرنے اور اتحاد بنانے کے لیے اہم مرکز تصور کیا ہے لیکن پاکستان کے معاشی دارالحکومت میں دہشت گردی پر بلا تعطل سخت کارروائی، جس کا آغاز رینجرز نے ستمبر 2013 میں کیا تھا، نے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں اور سرمایہ اکٹھا کرنے کو مفلوج کر دیا ہے۔

سخت کارروائی

شہر کے مختلف علاقوں میں متواتر چھاپے جاری رکھتے ہوئے، سیکیورٹی فورسز نے حالیہ ہفتوں میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے متعدد ارکان اور ملزمان کو گرفتار یا ہلاک کیا ہے۔

11 دسمبر کو، پولیس نے ٹی ٹی پی کے پانچ مشتبہ افراد کو اقبال مارکیٹ کے علاقے سے گرفتار کیا تھا۔

ذرائع ابلاغ کو جاری کی جانے والی ایک خبر میں پولیس کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد کا تعلق ٹی ٹی پی کے بیت اللہ محسود دھڑے سے تھا۔

پولیس نے کہا کہ زیرِ حراست افراد نے افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں تربیت حاصل کی تھی اور بہت سے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا تھا، جن میں بچوں کا اغواء برائے تاوان اور شہر کے تاجروں سے بھتہ وصولی شامل ہیں۔

پولیس نے ان کی شناخت شہزاد، نور محمد، عبدالمنان، ارسلان خان اور سلمان خان کے طور پر کی ہے۔

ذرائع ابلاغ کو جاری کی جانے والی خبر میں کہا گیا کہ ملزمان 12 دسمبر کو کراچی میں عید میلاد النبی کے ایک جلوس پر بم حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

8 دسمبر کو، پولیس نے اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں ٹی ٹی پی کی سوات شاخ سے تعلق رکھنے والے پانچ مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے کہا کہ انہوں نے اسلحہ اور گولہ بارود کی بھاری مقدار برآمد کی ہے۔

اسی طرح، کراچی پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی نے اعلان کیا کہ اس نے 28 نومبر کو مچھر کالونی کے علاقے میں ٹی ٹی پی کے تین مشتبہ ارکان کو گرفتار کیا تھا۔

پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ ملزمان تاجروں کو ہراساں کرتے تھے، ان سے بھتہ وصول کرتے تھے اور دیگر جرائم میں ملوث تھے۔

کراچی میں کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی میں شریک سی ٹی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر، راجہ عمر خطاب نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں ٹی ٹی پی کی کمانڈ اینڈ کنٹرول کو تباہ کر دیا ہے۔

خطاب نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "تنظیم کے زیادہ تر ارکان اور رہنماء یا تو گرفتار ہو چکے ہیں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلوں میں مارے گئے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے حربے

کراچی میں فعال طالبان کے کئی دھڑوں پر چھاپوں کے درمیان ہی، دسمبر کے اوائل میں سوشل میڈیا پر پشتو زبان میں دو منٹ کا ایک ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں ٹی ٹی پی کے سپریم کمانڈر ملا فضل اللہ نے کراچی کے لیے ٹی ٹی پی کے ایک نئے سربراہ کا اعلان کیا تھا۔

ٹی ٹی پی کے محسود دھڑے سے تعلق رکھنے والا ایک عسکریت پسند اور سابق پولیس افسر، داؤد محسود ویڈیو میں فضل اللہ کے ساتھ دکھائی دیا تھا۔ ویڈیو پیغام کے محلِ وقوع اور ریکارڈنگ کی تاریخ کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

دوسری جانب، 8 دسمبر کو دن کے ابتدائی حصے میں منگھوپیر کے مضافات میں ٹی ٹی پی کے حق میں دیواروں پر نعرے درج کیے گئے تھے۔

تاہم، پولیس اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ویڈیو اور دیواروں پر تحریر صرف عوام کو دہشت زدہ کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تذبذب کا شکار بنانے کی طالبانی حکمتِ عملی تھی۔

عمر خطاب نے کہا، "ایسی کوششوں کے ذریعے، جیسے کہ کراچی میں ٹی ٹی پی کے ایک نئے سربراہ کا اعلان اور دیواروں کو طالبان کے حق میں نعرے، کمزور طالبان جنگجو شہر کے مکینوں میں خوف پھیلانا چاہتے ہیں۔"

امن و امان کی بہتر صورتحال

اسلام آباد کے مقامی مرکز برائے تحقیق و دفاعی مطالعات کے ساتھ منسلک کراچی میں ایک دفاعی تجزیہ کار، محمد نفیس نے کہا کہ سنہ 2013 میں پورے شہر میں رینجرز کی سخت کارروائی کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "مجموعی طور پر، فساد، بشمول طالبان کی پرتشدد کارروائیاں، گینگ وارز اور فرقہ پرست مخالفتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جب اس کا موازنہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے کے اعدادوشمار کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

ماضی میں، جون 2012 میں آغاز کرتے ہوئے، ٹی ٹی پی نے شہر کے پشتون آبادی والے علاقوں پر اپنا تسلط قائم رکھا، ان علاقوں کو روشن خیال سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، تنظیموں اور انسدادِ پولیو کے لیے کام کرنے والے محکمۂ صحت کے اہلکاروں کے لیے "ممنوعہ" علاقوں میں تبدیل کرتے ہوئے۔

خطاب نے کہا کہ اس عرصے کے دوران، طالبان نے لوگوں سے بھتہ خوری کرتے ہوئے اور انہیں تاوان کے لیے اغواء کرتے ہوئے دہشت زدہ کیا تاکہ قبائلی علاقوں میں لڑ رہے عسکریت پسندوں کے لیے سرمایہ اکٹھا کیا جائے۔

کراچی میں پشتون قبائلی عمائدین نے امن و امان کی صورتحال کے بہتر ہونے کی اطلاعات کی تصدیق کی۔

منگھوپیر میں ایک پشتون سیاسی شخصیت، حاجی محمد زادہ نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی نے ٹی ٹی پی کے تینوں دھڑوں -- جنوبی وزیرستان (محسود)، سوات اور مہمند -- کے ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو شہر میں سرگرم ہیں اور ان کی پناہ گاہوں کو تباہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں بدترین وقتوں کے مقابلے میں، آج عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اب کراچی کے مکین کسی بھی اعلان یا دیواروں پر لکھی تحریر سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ وہ پُراعتماد ہیں کہ طالبان واپس لوٹنے کے قابل نہیں ہوں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اگر کراچی میں امن لانا ہے تو mpm پر نظر رکھی جائے یہ لوگ پاکستان سے مخلص نہیں ہے اگر حکومت چاہے تو کراچی 7 دن میں دہشتگردی سے پاک ہو سکتا ہے سوات وانا مالاکنڈ وزیرستان میں کے جہاں دہشتگردی کا نیٹورک بہت مضبوط تہا وہاں امن ہو گیا تو کراچی کیا ہے مسلہ ہمارے حکمران اچھے نہیں ہے یہ لوگ ان دہشتگرد سے اپنا کام لیتے ہیں اس لیے ان کو کچھ نہیں کہتے ہم لوگ فوج کی وجہ سے امن میں ہے نہیں تو یہ حکمران کب کا پاکستان کو کمزور کر کے ٹکڑے کر دیتےاللہ کے شکر گزار ہونا چاہیےکہ ہماری فوج دنیا کی اچھی فوج ہے قاہد اعظم کے بعد ہم کو اچھا حکمران نہیں ملا سب چور ڈاکو ملے ہیں گنجا زرداری الطاف سب اک ہے بس ہم لوگوں کا ڈرامہ لگایا ہے ملک کو لوٹتے ہیں اور باہر جس کو اپنے ملک کے ڈاکٹر پر یقین نا ہو جو علاج کے لئے باہر دفعہ ہو جن کا کاروبار باہر ہو وہ ملک کے 7 کیسے ملخص ہو سکتے ہیں میرا بس میں ہوتا ان سب کے دماغ میں گولیاں مارتا تماشا بنا دیا پاکستان کو ان لوگوں نے اپنے مفاد کےلیے

جواب