دہشتگردی

بلوچستان میں سینکڑوں عسکریت پسند ہتھیار ڈالنے کو تیار

عبد الغنی کاکڑ

7 نومبر کو کوئٹہ میں متعدد کالعدم تنظیموں کے عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالے۔ متعدد دیگر عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کرنے کے لیے حال ہی میں بلوچستان کے حکام سے رابطہ کیا ہے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

7 نومبر کو کوئٹہ میں متعدد کالعدم تنظیموں کے عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالے۔ متعدد دیگر عسکریت پسندوں نے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کرنے کے لیے حال ہی میں بلوچستان کے حکام سے رابطہ کیا ہے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ — حکام نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسلسل آپریشن کے ذریعے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کو ایک بڑا دھچکہ پہنچنے کے بعد ان میں سے ایک بڑی تعداد نے ہتھیار ڈالنے سے متعلق بات چیت کرنے کے لیے حکام سے رابطہ کیا ہے۔

ان عسکریت پسندوں کا تعلق متعدد کالعدم گروہوں سے ہے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ انٹیلی جنس عہدیدار محمّد بلال نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”350 سے زائد عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ کالعدم گروہوں کے متعدد کلیدی کمانڈروں نے“ قبائلی عمائدین کے ذریعے حکام سے رابطہ کیا ہے۔

ایک بڑی پیشرفت

بلال نے کہا کہ مستقبل قریب کی ہتھیار ڈالے جانے کی کاروائی ”ایک بڑی پیش رفت ہے،“ انہوں نے مزید کہا، ”ان عسکریت پسندوں نے۔۔۔ انکشاف کیا کہ وہ اس جنگ کی حقیقت کو جان چکے ہیں جسے وہ ایک دہائی سے مسلط کیے ہوئے ہیں۔“

دو برس سے زائد عرصہ سے بلوچستان میں افواج شورشیوں کو کچل رہی ہیں، انہیں ہلاک کر رہی ہیں اور ان کی کمین گاہوں کو تباہ کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسندوں نے قبائلی عمائدین کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ ”وہ 6 اگست 2015 کو حکومت کی جانب سے اعلان کیے گئے پرامن بلوچستان پیکچ ۔۔۔ کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔“

اس پیکیج میں ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کے لیے پرکشش نقد فوائد شامل ہیں، جو نچلی سطح کے عسکریت پسندوں کے لیے 500,000 روپے (4,770 امریکی ڈالر) سے لیکر سینیئر کمانڈروں کے لیے 1.5 ملین روپے (14,320 امریکی ڈالر) تک ہیں۔

بلال نے کہا، ”عسکریت پسندوں کی پیشکش زیرِ غور ہے۔ نفاذِ قانون کے ادارے حقیقی تعداد اور ہتھیار ڈالنے کی خواہش رکھنے والوں کے زمینی حقائق کی تصدیق کرنے پر کام کر رہے ہیں۔“

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ دفاعی تجزیہ کار میجر (ریٹائرڈ) محمّد عمر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پرامن بلوچستان پیکیج ”عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کی ترغیب دے رہا ہے۔“

انہوں نے کہا، ”انسدادِ شورش کے لیے مسلسل حملوں نے عسکریت پسندوں کی آپریشنل استعداد کو بھی بڑی حد تک کچل دیا ہے۔“

حوصلہ شکنی اور جاگیردار

بلال نے بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی، لشکرِ جھنگوی اور دیگر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حسبِ معمول اپنی زندگیوں کا دوبارہ آغاز کرنے کی خواہش رکھنے والے افراد عسکریت پسند گروہوں کی ایک بڑی تعداد کی نمائندگی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”نوشکی، سبّی، ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے چند دیگر علاقوں میں متعدد اعلیٰ کمانڈر ۔۔۔ پہلے ہی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔“

میدانِ جنگ میں شکست در شکست کے علاوہ داخلی جاگیرداروں نے بھی عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے مجبور کیا ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے انسدادِ دہشتگردی کے ایک عہدیدار محمّد سعد نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ بلوچستان میں عسکریت پسند گروہوں کے اندر ان کی جنگ کے ایجنڈا سے متعلق بڑے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے ہی سے لڑنا شروع کر دیا۔“

سعد نے کہا کہ عسکریت پسند گروہ تربت، آوران اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ایک دوسرے کے ارکان کو اغوا اور قتل کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا، ”ہم نے مخالف گروہ کے ہاتھوں اغوا ہونے والے عسکریت پسندوں کے طور پر۔۔۔ آوران، ماشکئے، خضدار اور قلات کے علاقوں سے ملنے والی متعدد میّتوں کی شناخت کی۔“

ایک حالیہ واقعہ میں 22 نومبر کو لیویز فورس کے اہلکاروں کو خضدار میں دو لاشیں ملیں۔ بلوچ لبریشن آرمی نے ان اموات کی ذمہ داری قبول کی اور دونوں ہلاک شدگان کو مخالف عسکریت پسند قرار دیا ”جو ہمارے مقاصد کے خلاف کام کرتے تھے۔“

مزید کامیابی کی ہدایت

تجزیہ کار عمر نے مزید کہا کہ جیسے بڑے پیمانے پر ہھتیار ڈالے جانے سے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہو رہے ہیں، ”نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کو ان علاقوں میں انسدادِ شورش کے لیے حملے کرنے چاہیئں جہاں عسکریت پسندوں کی موجودگی ریاست کی نفاذِ امن کی صلاحیت کو متاثر کر رہی ہے۔“

انہوں نے کہا، ریاست کو”بغاوت سے متاثرہ علاقوں میں عوام کی جانب سے ظاہر کیے گئے اعتماد کے فقدان کو بھی توجہ دینی چاہیئے۔“

انہوں نے اس موقع سے متعلق کہا، ”ناخوش لوگوں کو مرکزی دھارے میں لا کر“ریاست خطہ میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مدد کر سکتی ہے۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار غلام نبی بلوچ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب عسکریت پسند ہتھیار ڈالتے ہیں، ”وہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ جنگ کے ذریعہ کبھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔“

انہوں نے کہا، ”بلوچستان کا اوسط شہری امن و ترقی چاہتا ہے۔ امن مخالف عناصر میں ملوث لوگوں کی اکثریت کو نیابتی جنگ لڑنے والے عناصر غلط راستہ دکھاتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ پیش رفت کو جاری رکھنے کے لیے حکومت کو یہ امر یقنی بنانا ہو گا کہ قبل ازاں ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسند پرامن بلوچستان پیکیج سے مکمل مستفید ہوں، انہوں نے مزید کہا، ”ریاست کو ہمارے نوجوانوں کی سوچ سے عسکریت پسندوں کا رسوخ ختم کرنے کے لیے مزید ترغیبات تشکیل دینا ہوں گی۔“

آرمی چیف کا الوداعی خطاب

آرمی چیف کے طور پر اپنی مدّت کے خاتمہ پر جنرل راحیل شریف نے بلوچستان میں عسکریت پسندی کی زرد پڑتی قوت کا حوالہ دیا۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے مطابق، راحیل نے 23 نومبر کو کوئٹہ میں آرمی چیف کے طور پر اپنے آخری دورے میں کہا، ”بلوچستان میں لہریں عسکریت پسندوں کے مخالف چلنے لگی ہیں۔ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد مسلسل ہتھیار ڈال رہی ہے۔“

انہوں نے کہا، ”وسیع تر سلامتی و استحکام کے لیے فوج صوبے کے ساتھ مل کر کام کرتی رہے گی۔“

انسدادِ دہشتگردی کے عہدیدار، سعد نے کہا کہ پاکستانی ”اس امر پر اطمینان رکھ سکتے ہیں کہ ریاست کبھی قومی نظریہ اور سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500