دہشتگردی

فاٹا میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ شدہ اسکول دوبارہ کھل گئے

از عدیل سعید

پاکستانی اسکولوں کے بچے 7 مارچ 2015 کو لوئر دیر، خیبرپختونخوا میں ایک اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے، جسے عسکریت پسندوں کی جانب سے تباہ کر دیئے جانے کے بعد مزدوروں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ [احسان اللہ/اے ایف پی]

پاکستانی اسکولوں کے بچے 7 مارچ 2015 کو لوئر دیر، خیبرپختونخوا میں ایک اسکول میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے، جسے عسکریت پسندوں کی جانب سے تباہ کر دیئے جانے کے بعد مزدوروں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ [احسان اللہ/اے ایف پی]

پشاور -- پاکستانی حکام وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں عسکریت پسندوں کے ایک دہائی طویل دورِ دہشت گردی کے دوران تباہ کردہ سینکڑوں اسکولوں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔

پشاور میں فاٹا سیکریٹریٹ پر ڈپٹی ڈائریکٹر برائے منصوبہ بندی زاہد اللہ خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ 2001 کے بعد کے عشرے میں، عسکریت پسندوں نے "فاٹا میں 1،195 اسکولوں کو تباہ کیا یا نقصان پہنچایا، جس سے ہزاروں طلباء و طالبات کو ان کے تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا۔"

انہوں نے کہا کہ ان 1،195 اسکولوں میں سے، تقریباً 700 کو تباہ کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا سب سے زیادہ متاثرہ قبائلی ایجنسی جنوبی وزیرستان تھی، جہاں عسکریت پسندوں نے 204 اسکولوں کو تباہ کیا تھا۔

فاٹا میں صورتحال اس وقت بہتر ہو گئی جب پاکستانی فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا، جس نے ہزاروں عسکریت پسندوں کو یا تو ہلاک کر دیا یا علاقے سے بھگا دیا۔ یہ آپریشن تاحال جاری ہے۔

زاہد اللہ نے کہا، "علاقے میں کامیاب عسکری کارروائیوں، خصوصاً ضربِ عضب کے بعد، عارضی طور پر گھربدر ہونے والے بیس لاکھ افراد [ٹی ڈی پیز] کی بھاری تعداد میں واپسی کا عمل شروع ہوا۔ حکومت نے بحالی کے کام ۔۔۔ اور اسکولوں کی تعمیرِ نو کا آغاز کیا۔"

انہوں نے کہا، "ہم نے تعمیرِ نو کی ایک مضبوط حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کی ہے۔ اس میں محفوظ، تباہی کی مزاحم اور کم توانائی استعمال کرنے والی تعمیر کے اصول شامل ہیں۔"

نمایاں پیش رفت

زاہد اللہ نے کہا کہ ابھی تک، فاٹا میں مزدوروں نے 472 اسکول دوبارہ تعمیر کر دیئے ہیں اور دیگر 374 تعمیر کر رہے ہیں۔ تعمیرِ نو کا کام بدترین برسوں کے دوران بھی جاری رہا البتہ سنہ 2015 سے آغاز کرتے ہوئے اس میں تیزی آ گئی جب عسکری کارروائیوں، بشمول ضربِ عضب کے سلسلے سے عسکریت پسند یہاں سے فرار ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کا ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) تعمیرِ نو اور بحالی یونٹ (آر آر یو) کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جو کہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور پاکستانی حکومت کی ایک مشترکہ کاوش ہے اور مزید 349 اسکولوں کی تعمیر سے قبل تفصیلات کو حتمی شکل دے رہا ہے۔

ایک مقام جہاں پر پیش رفت واضح ہے وہ خیبر ایجنسی ہے۔

ڈان نے خیبر ایجنسی کے ایک افسرِ تعلیم، رؤف خان کا حوالہ دیتے ہوئے 2 نومبر کو خبر دی تھی کہ تحصیل باڑہ، خیبر ایجنسی میں تمام تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیرِ نو کا آغاز ہو گیا ہے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ خیبر ایجنسی میں 180 اسکول جنہیں عسکریت پسندوں نے نقصان پہنچایا تھا ان میں سے 93 اسکول تحصیل باڑہ میں تھے۔ وہ بچے جن کے پاس مستقل عمارات کی قلت ہے خیموں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تعمیرِ نو مکمل ہونے میں 18 سے 20 ماہ کا وقت لگے گا۔

فاٹا یونیورسٹی

درہ آدم خیل میں نئی قائم کردہ فاٹا یونیورسٹی کے ایک مشیر، انوار احمد خواجہ نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ آر آر یو اور یو این ڈی پی "نئی اسکولوں میں فرنیچر مہیا کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ فاٹا میں نئے اسکولوں کو فرنیچر مہیا کرنے کے لیے حکام نے 40 ملین روپے (400،000 امریکی ڈالر) مختص کر دیئے ہیں۔

دریں اثناء، فاٹا یونیورسٹی قبائلی پٹی میں تاریخ میں پہلی یونیورسٹی کے طور پر امور انجام دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکتوبر کے بعد سے، اس نے پولیٹیکل سائنس، عمرانیات، ریاضی اور انتظامی علوم میں کلاسوں کی پیشکش کی ہے۔ اسے ایک اچھی علامت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فی الوقت، 185 طلباء و طالبات کلاسیں لے رہے ہیں۔

یونیورسٹی اور اسکولوں کی تعمیرِ نو کا پُرعزم پروگرام فاٹا میں حوصلہ شکنی کرنے والے تعلیمی اشاریوں کا رخ تبدیل کرنے کی ایک بہت بڑی کوشش کا حصہ ہیں۔

فاٹا کے لیے بعد از بحران ضروریات کی تخمینہ کاری (پی سی این اے) کے اطلاق کے معاون یونٹ کے رابطۂ کار، ظہور احمد نے کہا، "فاٹا کی ترقی کے اشاریوں کا گھر گھر کیا جانے والا ایک حالیہ سروے ظاہر کرتا ہے کہ فاٹا میں مجموعی خواندگی کی شرح 33.3 فیصد ہے؛ جبکہ قومی شرح ۔۔۔ 58 فیصد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس شرح میں خواتین میں خواندگی کی انتہائی پست شرح 7.8 فیصد بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان نتائج کی بنیاد پر، پاکستانی حکومت نے فاٹا میں تعلیم میں جدت لانے کو ایک ترجیح بنایا ہے۔

تیز رفتار تعمیرِ نو کی ضرورت

کچھ مبصرین فاٹا میں تیز تر تعمیرِ نو چاہتے ہیں، ان میں سے ایک، فاٹا اسٹوڈنس آرگنائزیشن کی خیبر ایجنسی شاخ کے صدر عابد آفریدی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ تعمیرِ نو کا کام سست روی کا شکار ہے۔

اس تعلیمی سال باڑہ میں تقریباً 4،000 بچوں اور نوجوانوں کے پاس پڑھنے کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے کا اضافہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ فی الوقت باڑہ میں صرف 13 ہائی اسکول اور ایک کالج فعال ہیں۔

فاٹا اسٹوڈنٹس یونین کے صدر، شوکت عزیز بھی اسکولوں کی تیز رفتار تعمیرِ نو کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں واپس لوٹنے والے قبائلیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے، حکومت کو بنیادی ڈھانچے اور خدمات کی فراہمی کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ دلیل دیتے ہوئے کہ فوج کی جانب سے دہشت گردوں کو بھگانے سے پہلے ناخواندگی اور پسماندگی نے فاٹا کو ان کے لیے ایک زرخیز سرزمین بنا دیا تھا، عزیز نے کہا، "قبائلی علاقے میں واپس لوٹنے والے قبائلیوں کے لیے تعلیم حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔"

کے پی کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے جولائی میں فاٹا یونیورسٹی میں کہا تھا، "ایک تعلیم یافتہ فاٹا قبائلی علاقے میں ایک دیرپا امن کا ضامن ہو گا۔"

تعلیم "قبائلیوں کو ملک کی ترقی میں اپنا جائز حصہ ڈالنے کے لیے کردار ادا کرنے کے قابل بنائے گی،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے یونیورسٹی میں کہا تھا کہ قبائل کو اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500