رواداری

پی ای اے ڈی پاکستان میں انتہاپسندی کے خلاف آگاہی پھیلا رہی ہے

عدیل سید

طلباء تیس اکتوبر کو پشاور میں سکھ گوردوراہ کے دورے کے دوران تصویر کھنچوا رہے ہیں۔ پی ای اے ڈی فاونڈیشن بین المذاہب ہم آہنگی بڑھانے اور انتہاپسندی کو کم کرنے کے لیے ایسے دورے منظم کر رہی ہے۔ ]بہ شکریہ عدیل سید[

طلباء تیس اکتوبر کو پشاور میں سکھ گوردوراہ کے دورے کے دوران تصویر کھنچوا رہے ہیں۔ پی ای اے ڈی فاونڈیشن بین المذاہب ہم آہنگی بڑھانے اور انتہاپسندی کو کم کرنے کے لیے ایسے دورے منظم کر رہی ہے۔ ]بہ شکریہ عدیل سید[

پشاور - ایک پاکستانی این جی او ملک بھر میں امن کو مضبوط بنانے اور خوشحال پاکستان کی تعمیر میں مدد کے لیے کام کر رہی ہے۔

اسلام آباد میں قائم پیس ایجوکیشن اینڈ ڈویلپمنٹ (پی ای اے ڈی) فاونڈیشن کی ترجیح آگاہی کو پھیلانا ہے۔

پی ای اے ڈی کے پشاور دفتر کی سینئر کوارڈی نیٹر شگفتہ خالق نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "گزشتہ دہائی کے دوران، ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی رہی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "2002 سے اب تک، پی ای اے ڈی فاونڈیشن بنیاد پرستی کے خاتمے اور انتہاپسندی کے انسداد کی کوششوں میں مصروف رہی ہے"۔

ان چودہ سالوں کے دوران، پی ای اے ڈی نے غیر متشدد طریقہ زندگی، بنیاد پرستی کے اثرات اور سماجی و مذہبی ہم آہنگی کے فضائل، گڈ گورنس اور انسانی حقوق کے احترام، کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے بہت سے پروگرام منعقد کیے ہیں۔

سب کے ساتھ کام کرنا

انتہاپسندی سے لڑنے کے لیے مقامی گروہوں، حکومتی ایجنسیوں، طلباء، اساتذہ اور ہر سطح کے اہلکاروں جن میں لیڈی کونسلرز (ضلع، تحصیل اور یونین کونسلوں کی خاتون ارکان) کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔

شگفتہ نے کہا کہ "ہماری گروہی گفت و شنید کی توجہ اختلافات کو حل کرنے کے اقدمات، جھگڑوں سے بچنے اور نئی نسل کو انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے پر مرکوز ہوتی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ای اے ڈی کے سہولت کار جو آگاہی کے سیشن منعقد کرتے ہیں، شرکا کو آگاہ کرتے ہیں کہ اختلافات سے کیسے بچا جائے اور انتہاپسندی کی طرف سے ملک کو کیا خطرات درپیش ہیں۔

بہت سے مقاصد، ایک سمت

پی ای اے ڈی کے منصوبے بہت سے مسائل سے نپٹتے ہیں مگر ان سب کا مقصد ایک ایسے ملک میں امن قائم کرنا ہے جس نے بہت زیادہ دہشت گردی کا سامنا کر لیا ہے۔

شگفتہ نے کہا کہ اس کے اہم ترین منصوبوں میں سے ایک "صرف پائیدار امن" ہے۔ انہوں نے اسے انتہاپسندی سے جنگ اور پرامن معاشرے کی تشہیر کے لیے اسکول کے نصاب کی اصلاح کرنے کی کوشش کے طور پر بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور منصوبے میں پبلک اسکولوں اور مدرسوں کے طلباء کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد غلط فہمیوں کو دور کرنا اور مدرسوں کے طلباء کو جدید پبلک تعلیم کے بارے میں سیکھنے کے قابل بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ای اے ڈی کالج کے کچھ مسلمان طلباء کو سکھوں اور ہندووں کی عبادت گاہوں پر لے کر گئے جو کہ بین المذاہب ہم آہنگی کی تشہیر کی ایک کوشش ہے۔

شگفتہ نے کہا کہ پاکستان کو "نفرت اور منفی تصوارت" پر قابو پانے کے لیے "سب لوگوں کے لیے انتہائی محبت اور احترام" کی ضرورت ہے۔

کالج کے ایک مسلمان طالبِ علم نے تیس اکتوبر کو پشاور کے گوردوراہ کے دورے کے دوران بہت کچھ سیکھا۔

راشد خان نے بعد میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ "میں نے اپنی زندگی میں کبھی گوردوارہ نہیں دیکھا تھا۔ پہلے میرے پاس بہت سے غلط تصورات تھے"۔

انہوں نے سکھ برادری کی طرف سے اس کے طلباء گروپ کو دیے جانے والے پرجوش خیرمقدم پر حیرانی کا اظہار کیا۔

مقامی سکھ برادری کے ایک راہنما، چرن جیت سنگھ نے دورہ کرنے والے طلباء کو تعارفی سیشن دیا۔

انہوں نے کہا کہ "ہم مسلمانوں اور سکھوں کو پرامن طریقے سے رہنا چاہیے"۔

پی ای اے ڈی ملک میں لڑائی اور تشدد کو ختم کرنے کے اپنے عزم میں ثابت قدم ہے۔

پی ای اے ڈی کی بانی اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ثمینہ امتیاز نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "انتہاپسندی کو شکست دینے کے لیے، ہمیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہو گا جہاں قانون کی بالادستی، احتساب اور انصاف کی حکمرانی ہو"۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، پی ای اے ڈی نوجوانوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے اور مستقبل کے راہنماؤں اور سمجھ داری کی آوازوں کے طور پر ان کی صلاحیتوں کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔

معاش کے مواقع پیدا کرنا اور معاشرے کا تشکر حاصل کرنا

بہت سے پاکستانیوں نے پی ای اے ڈی کی مدد سے کوئی ہنر سیکھا ہے یا کسی کاروبار کا آغاز کیا ہے جس سے فاقوں کے شکار افراد اور ایسے بد دل افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے جو انتہاپسندی کا نشانہ بن سکتے تھے۔

مدرسے کے ایک طالبِ علم معظم اقبال نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کمپیوٹر میں ایک شارٹ کورس نے پشاور کے قصہ خوانی بازار میں مجھے ملازمت دلانے میں مدد کی ہے"۔

اس نے کہا کہ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے جس کی سربراہی اس کا معذور والد کرتا ہے اور وہ پی ای اے ڈی کا شکرگزار ہے کہ اس نے اسے ذمہ داری شہری بننے میں مدد فراہم کی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے تیمور کمال جو کہ خیبرپختونخواہ (کے پی) سول سوسائٹی نیٹ ورک کے کوارڈی نیٹر ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ بدقسمتی سے "انتہائی غربت اور وسائل کی کمی نے ہزاروں پاکستانیوں کو بنیاد پرستی کا نشانہ بننے کے قابل بنا دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ پی ای اے ڈی جیسی این جی اوز نے "آگاہی پھیلانے اور ملازمت کے لیے تربیت فراہم کرنے سے ہمارے ملک میں انتہاپسندی کی لہر کو چھوٹا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی سے جنگ میں سول سوسائٹی کا کردار تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے قمر نسیم جو کہ کے پی سول سوسائٹی نیٹ ورک کے ایک سرگرم رکن ہیں کو بذات خود عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، بھی انتہاپسندی سے جنگ میں این جی او کے کردار سے متاثر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ای اے ڈی جیسی تنظیمیں "دہشت گردی کے خلاف ایک فصیل ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے گروپوں نے "لوگوں کی بڑی تعداد کو انتہاپسند بننے سے روکا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ انتہاپسندی کو شکست دینے کے لیے پاکستان کو سیکورٹی افواج کی پکڑ دھکڑ کے علاوہ سول سوسائٹی کے کام کی ضرورت ہے۔

انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ عوام کو پی ای اے ڈی جیسی این جی اوز کے کردار کو تسلیم کرنا چاہیے جو انتہاپسندی سے جنگ کر رہی ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہاں مجھے یہ پسند ہے

جواب