مذہب

کراچی میں فرقہ ورانہ فسادات کے خلاف کریک ڈاؤن

ضیاء الرّحمٰن

5 نومبر کو کراچی میں نیم فوجی رینجرز اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ فرنٹیئر کور، رینجرز اور پولیس شہر میں فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے میں ملوث نسلی سیاسی جماعتوں کے عسکری بازؤں اور جرائم پیشہ گینگز کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرّحمٰن]

5 نومبر کو کراچی میں نیم فوجی رینجرز اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ فرنٹیئر کور، رینجرز اور پولیس شہر میں فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینے میں ملوث نسلی سیاسی جماعتوں کے عسکری بازؤں اور جرائم پیشہ گینگز کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ [ضیاء الرّحمٰن]

کراچی — نفاذِ قانون کی ایجنسیاں، کراچی میں فرقہ ورانہ حملوں میں اضافہ کا سامنا کرتے ہوئے، ان گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کر رہے ہیں، جن کا مقصد فرقہ ورانہ تنازعات کا بیج بونا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، 9 اور 11 نومبر کے درمیان کراچی میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر کم از کم 20 افراد کو قتل کیا گیا۔ متاثرین کا تعلق شعیہ اور سنّی، دونوں برادریوں سے تھا۔

اگرچہ ستمبر 2013 میں نیم فوجی رینجرز کی جانب سے شروع کیے جانے والے ایک مسلسل کریک ڈاؤن نے کراچی میں متعدد طالبان نیٹ ورکس کو توڑ دیا ہے، تاہم حکام فرقہ ورانہ فسادات کے دوبارہ شروع ہونے پر جرائم پیشہ گینگز اور نسلی سیاسی جماعتوں کے عسکری بازوؤں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

ایوانِ وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے ایک ہینڈ آؤٹ میں کہا گیا کہ 7 نومبر کے ایک اجلاس کے دوان سندھ کی صوبائی کابینہ نے فرقہ ورانہ بدامنی کو ہوا دینے والے عناصر کے خلاف صفر برداشت رکھنے کو دہرایا۔

وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ نے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا، ”حکومت نے دہشتگردوں، بطورِ خاص کراچی میں فرقہ ورانہ تنازعات کو ہوا دینے والوں کے خلاف ایک کاروائی کا آغاز کیا ہے۔“

وزیرِ اعلیٰ کے ترجمان مولابخش چانڈیو نے کہا کہ فرقہ ورانہ حملوں میں حالیہ اضافہ شہر میں قیامِ امن کے لیے نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کی تین برس کی کوششوں کو ضائع کر رہا ہے۔

چانڈیو نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”حکومتِ سندھ [۔۔۔] نے خونریزی میں ملوث فرقہ ورانہ گروہوں کے خلاف اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ہے،“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کاروائی تمام فرقہ ورانہ گروہوں کے خلاف نافذ العمل ہو گی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا۔

گرفتاریاں اور کریک ڈاؤن

دونوں فرقوں سے افراد کی حالیہ گرفتاریاں حکومت کے دعووں کی تصدیق کرتی ہیں۔

نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے گزشتہ چند روز کے دوران درجنوں گرفتاریاں کی ہیں۔ انہوں نے 7 نومبر کو پرتشدد احتجاج اور تصادم کو بھڑکانے پر کراچی میں اہلِ سنّت والجماعت (اے ایس ڈبلیو) کے جنرل سیکریٹری علّامہ تاج محمّد حنفی اور شعیہ عالم علّامہ مرزا یوسف حسین کو حراست میں لیا۔

کراچی پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے 7 نومبر کو تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک علیحدہ ہو جانے والے دھڑے لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) کے دو مشتبہ ارکان کو بھی گرفتار کیا جو مبینہ طور پر شہر میں 22 جون کو صوفی گلوکار امجد صابری کے قتل میں ملوث تھے۔

سی ٹی ڈی کے ایک اعلیٰ عہدیدار راجہ عمر خطاب نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”لیاقت آباد کے علاقہ سے دو عسکریت پسندوں – عاصم المعروف کیپری اور اسحاق المعروف بوبی – کو گرفتار کیا گیا اور چھان بین اور فرانزک تفتیش کے بعد ہمیں شواہد ملے کہ وہ صابری کے قتل سمیت 28 مقدمات میں ملوث تھے۔“

انہوں نے کہا کہ صابری کے قتل کے علاوہ وہ ان دونوں پر سیکیورٹی اہلکاروں، ججوں اور کراچی میں مجالس میں شریک شعیہ عبادت گزاروں پر حملوں کا الزام ہے۔

انہوں نے کہا، ”ہم نے ان کے قبضہ سے اسلحہ اور گولہ بارود کی بڑی مقدار ضبط کی ہے۔“

درایں اثناء، دی نیشن نے خبر دی کہ پولیس نے 8 نومبر کو منگھوپیر میں ایک مقابلہ کے دوران اے ایس ڈبلیو جے کے اورنگی ٹاؤن میں رہنما یوسف قدوسی کو ہلاک کر دیا۔ پولیس نے کہا کہ مقابلہ کے دوران اس کے متعدد ساتھی فرار ہو گئے۔

11 نومبر کو علی الصبح فرنٹیئر کور، سندھ رینجرز اور پولیس پر مشتمل ایک فورس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ ملحقہ ایک عسکریت پسند گروہ، جنداللہ پاکستان کے سربراہ ثاقب انجم کو بھی ہلاک کر دیا۔

ریجنرز ترجمان کی جانب سے پڑھ کر سنائے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا، ”انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ایک مخبری پر کاروائی کرتے ہوئے، رینجرز انسدادِ دہشتگردی فورس [۔۔۔] نے بلوچستان کے علاقہ حب میں عسکریت پسندوں کی ایک مشتبہ کمین گاہ پر کاروائی کی۔“

بیان میں کہا گیا کہ گولیوں کے تبادلے کے دوران جنداللہ کا سربراہ اور ٹی ٹی پی سندھ کا نامزد نائب سربراہ مارے گئے۔

ترجمان نے کہا کہ انجم نے کراچی اور بلوچستان میں متعدد اونچی سطح کے دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ ان میں اس وقت کے کراچی کور کمانڈر جنرل احسن سلیم کی گاڑی پر حملہ؛ جمیعت علمائے اسلام (فضل) کے سربراہ مولانا فضل الرّحمٰن پر کوئٹہ میں ناکام خودکش حملہ؛ کراچی میں سابق صدر آصف علی زرداری کے چیف سیکیورٹی آفیسر بلال شیخ کا قتل اور مذہبی اقلیتی کمیونیٹیز پر حملے شامل ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ کراچی فرقہ ورانہ فسادات کا گڑھ ہے

نفاذِ قانون کے اہلکاروں اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی پاکستان میں دیوبندی سنّی اورشعیہ گروہوں کے درمیان فسادات کے سرگرم ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں ادلے کا بدلہ قتل کا چکر معمول سے چلتا رہتا ہے۔

سی ٹی ڈی کے اعلیٰ عہدیدار خطاب نے کہا کہ یہ گروہ مخالف فرقوں کے فعال ارکان، پیشہ وران اور علمائے دین کی نگرانی کرتے رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی حملہ کرتے ہیں۔

کراچی میں عسکریت پسندی کو کوّر کرنے والے ایک آزاد محقق رئیس احمد نے کہا کہ کراچی میں سپاہِ صحابہ پاکستان، ایل ای جے اور جنداللہ جیسے کالعدم عسکریت پسند گروہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے ساتھ عملیاتی اور نظریاتی روابط رکھتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”قبائلی علاقہ جات میں کامیاب آپریشن ضربِ عضب کے بعد، ان عسکریت پسند گروہوں نے شمالی سندھ-بلوچستان سرحدی علاقوں میں نئی پناہ گاہیں تلاش کر لیں۔ وہ کراچی اور صوبہ کے دیگر حصّوں میں شعیہ کمیونیٹی اور حکومتی مفادات پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔“

ضربِ عضب شمالی وزیرستان پر مرکوز، فوج کا ایک انسدادِ شورش آپریشن ہے جو جون 2014 سے جاری ہے۔

احمد نے کہا کہ سنّی عسکریت پسندوں کی جانب سے خونریزی کے تعلق سے شعیہ عسکریت پسند گروہ، جیسا کہ سپاہِ محمّد پاکستان بھی کراچی میں جارح رہا ہے۔ اگرچہ شعیہ رہنما اپنی کمیونیٹی میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی تردید کرتے ہیں، تاہم شعیہ عسکریت پسند گروہ موجود ہیں اور شہر میں سنّی علماء کو قتل کرر ہے ہیں۔

نومبر کے اوائل میں کراچی سی ٹی ڈی کے سربراہ کی جانب سے ایک خط میں، محکمہ نے وفاقی حکومت سے ضلع خضدار، بلوچستان میں ایل ای جے اور ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کو پناہ فراہم کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کاروائی کرنے کی درخواست کی۔ سی ٹی ڈی اپنی درخواست کے جواب کا منتظر ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500