دہشتگردی

البغدادی کی تقریر داعش کے خاتمے کا شگون ہے

از علاء حسین بمقام بغداد اور ولید ابو الخیر بمقام قاہرہ

جون 2014 کی ایک ویڈیو سے لیے گئے اس سکرین شارٹ میں 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام' کا رہنماء ابوبکر البغدادی اپنی نام نہاد خلافت کی تخلیق کا اعلان کر رہا ہے۔ داعش کا رہنماء گوشہ نشین ہے اور بہت کم اپنی شکل دکھاتا ہے۔

جون 2014 کی ایک ویڈیو سے لیے گئے اس سکرین شارٹ میں 'دولتِ اسلامیہ عراق و شام' کا رہنماء ابوبکر البغدادی اپنی نام نہاد خلافت کی تخلیق کا اعلان کر رہا ہے۔ داعش کا رہنماء گوشہ نشین ہے اور بہت کم اپنی شکل دکھاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 'دولت اسلامیہ عراق و شام' (داعش) کے رہنماء ابوبکر البغدادی کا تازہ ترین آڈیو پیغام شکست اور خاتمے کی ایک تقریر کے طور پر سامنے آیا ہے، جس میں سرزنش کی تنبیہیں ہیں جو تنظیم کے جنگجوؤں میں مایوسی کی عکاسی کرتی ہیں۔

3 نومبر کی ریکارڈنگ، جسے سوشل میڈیا پر وسیع طور پر پھیلایا گیا، میں البغدادی نے موصل شہر میں داعش عناصر کو فرار نہ ہونے یا پسپا نہ ہونے کی ترغیب دی ہے۔

داعش سے الحاق شدہ ایک تنظیم جس نے پیغام جاری کیا ہے دعویٰ کرتی ہے کہ یہ البغدادی کی تقریر ہے۔ داعش کا رہنماء گوشہ نشین ہے اور شاذونادر ہی اپنی شکل دکھاتا ہے۔

ریکارڈنگ میں البغدادی کہتا ہے، "پسپا مت ہونا۔ وقار کے ساتھ اپنے قدموں پر جمے رہنا شرمندگی سے پسپا ہونے سے ہزار گنا آسان ہے۔"

17 اکتوبر سے، عراقی فوجیں داعش کو موصل شہر سے باہر نکالنے کے لیے ایک حملے میں مشغول ہیں، جو کہ عراق میں اس کا آخری مضبوط قبضہ اور وہ مقام ہے جہاں البغدادی نے دو سال قبل اپنی نام نہاد "خلافت" کا اعلان کیا تھا۔

مبصرین اور دفاعی حکام 32 منٹ کی اس تقریر کو جنگجوؤں کا مورال بلند کرنے کی ایک ناکام کوشش کے طور پر بیان کرتے ہیں، یہ واضح کرتے ہوئے کہ بتدریج علاقے ہاتھ سے کھوتے ہوئے تنظیم کی کمزوریوں اور خامیوں کے انکشاف ہونے سے، اس کا متضاد اثر ہوا ہے۔

مشترکہ کارروائیوں کی کمان کے ترجمان میجر جنرل یحییٰ رسول نے دیارونا کو بتایا کہ البغدادی کی تقریر شکست خوردگی کی تقریر تھی، جو داعش کے خاتمے کی حالت کی عکاسی کرتی ہے۔

رسول نے کہا کہ وہ "ثابت قدم رہو"، "قدم جمائے رکھو" اور "بھاگو مت" جیسے فقرے دوہراتا رہا جو ظاہر کرتا ہے کہ "البغدادی اپنے جنگجوؤں میں شکست کی ایک واضح حالت کو سدھارنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ داعش کے رہنماء کی اپنے پیروکاروں سے مایوسی واضح تھی حتیٰ کہ خود اسی کے لہجے اور الفاظ میں بھی اور ان تاثرات میں جو اس نے استعمال کرنے کے لیے منتخب کیے۔

اپنے پیروکاروں سے مایوس

عسکری تجزیہ کار فاضل ابو رغیف نے دیارونا کو بتایا، "تقریر نے تنظیم کے اندر مایوسی، تذبذب اور انتشار کی کیفیت کی عکاسی کی ہے اور علیحدگی کی ایک کیفیت اور اپنے حمایتیوں کے ساتھ مواصلات میں کمی کا دھوکہ بھی دیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ البغدادی نے لفظ "ثابت قدمی" 18 مرتبہ استعمال کیا ہے، جو اس کے جنگجوؤں میں تنبیہ کی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔

ابو رغیف نے کہا کہ اس نے فقرہ "اپنے قدم جمائے رکھو" چھ مرتبہ استعمال کیا، علاوہ ازیں اس نے سرزنشی تنبیہیں جیسے کہ "کمزوریوں سے آگاہ رہو" اور "پشت پھیرنے سے آگاہ رہو" بھی استعمال کیں، جیسے کہ اسے توقع ہو کہ اس کے پیروکار اپنی پوزیشنیں چھوڑ دیں گے اور بھاگ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ تقریر نے تنظیم کے اندر تقسیم اور سرکشی کا بھی انکشاف کیا ہے، جیسا کہ البغدادی کے اپنے پیروکاروں سے آٹھ مختلف مقامات پر اپنے رہنماؤں کی پیروی کرنے کے مطالبوں اور "تنازعہ اور اختلاف" سے تنبیہوں سے ثابت ہوتا ہے۔

ابو رغیف نے کہا کہ البغدادی نے نینوا کے لوگوں سے براہِ راست خطاب کیا، ان سے حمایت کی درخواست کرتے ہوئے، جو کہ نشاندہی کرتا ہے کہ اس کی اپنے بہت سے پیروکاروں سے امید ختم ہو چکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ داعش کے رہنماء نے اپنی تقریر کا اختتام "عاجزی اور التجا" کی ایک دعا کے ساتھ کیا، ایک دعا جو کہ صرف انتہائی مصیبت کے اوقات میں کی جاتی ہے، "آج ایسا ہی حال البغدادی اور اس کے پیروکاروں کا ہے۔"

تقریر بے اثر ہے

عراقی رکنِ اسمبلی اسکندر وتوت، جو پارلیمان کی دفاعی و سلامتی کمیٹی میں خدمات انجام دیتے ہیں، نے اس تقریر کا مذاق اڑایا ہے، جس میں البغدادی نے اپنے پیروکاروں سے "اتحادی فوج کے جہازوں کا مقابلہ دعاؤں سے کرنے" کو کہا ہے۔

انہوں نے دیارونا کو بتایا، "گروہ اپنے تمام ذرائع کھو چکا ہے اور آج پیش قدمی کرتی ہوئی عراقی فوج کے سامنے ٹھہرنے سے قاصر ہے جبکہ وہ موصل کے مرکز کی طرف بڑھ رہی ہیں۔"

بریگیڈیئر جنرل رسول نے کہا کہ البغدادی کی تقریر کو لڑائی کے چلن پر کوئی اثر نہیں ہوا نہ ہی اس سے جنگجوؤں کا گرتا ہوا مورال بلند ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے برعکس، تقریر کے چند ہی دنوں کے بعد، داعش کے جنگجوؤں کو موصل کے جنوب میں حمام العلیل میں شکست ہوئی، جو کہ تنظیم کے اہم مضبوط ٹھکانوں میں سے ایک رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی فورسز، عراقی فوج کی 15 ویں ڈویژن اور 34 ویں مسلح بریگیڈ فورسز نے موصل کے نواح میں بہت سے دیہات پر بھی قبضہ کر لیا ہے اور اب شہر کے مرکز سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی ہیں۔

انہوں نے کہا، "البغدادی، جس نے ایک سال سے زائد عرصہ تک خاموشی اختیار کیے رکھی، آج دوبارہ اپنے حامیوں کو تبلیغ کر رہا ہے کیونکہ اسے احساس ہو گیا ہے کہ موصل ۔۔۔ اب ان کے ہاتھوں سے پھسلنے کے خطرے سے دوچار ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ "موصل میں اس کی شکست کے بعد باقی مقبوضہ علاقوں میں بھی دیگر بڑی شکستیں ہوں گی اور یہ کہ یہ کھیل جلد ہی اختتام پذیر ہو جائے گا۔"

البغدادی کے خلاف بغاوت

مصر میں ابن الولید سٹڈیز اینڈ فیلڈ ریسرچ سینٹر کے نئے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر، مازن ذکی نے کہا کہ اپنی تقریر میں، البغدادی نے اپنے جنگجوؤں کو متنبہ کرتا ہے، انہوں یہ بتاتے ہوئے کہ امراء کے احکامات کی مکمل تعمیل کریں اور ان کی ہدایات پر سوال مت اٹھائیں۔

انہوں نے دیارونا کو بتایا کہ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ "ایک بغاوت تنظیم کی صفوں میں برپا ہو رہی ہے، اور خصوصاً موصل کو آزاد کروانے کی مہم شروع ہونے کے بعد سے۔"

ذکی نے کہا، "البغدادی نے اپنی تقریر میں ایک اور انتہائی اہم نقطے پر زور دیا ہے کہ تنظیم اپنے بہت سے امراء اور کمانڈروں کو کھونے سے نہ تو متاثر ہوئی ہے اور نہ ہی متاثر ہو گی۔"

انہوں نے کہا اس خطاب کے فیصلے کی بنیاد "خوف اور تذبذب" ہے جو حالیہ فضائی حملوں میں داعش کے بہت سے کمانڈروں کے مارے جانے کے بعد صفوں میں غالب آ رہا ہے۔

ایک سابقہ مصری فوجی افسر میجر جنرل یحییٰ محمد علی، جو انتہاپسند گروہوں پر ایک ماہر ہیں نے کہا کہ اپنی پوری تقریر میں، البغدادی نے افراد کو اکسانے کا ایک نکتہ اٹھایا ہے جس کا حوالہ اس نے "انغماسس" یا خودکش حملہ آوروں کے طور پر دیا ہے جو خود کو دشمن کی صفوں میں جا کر اڑاتے ہیں۔

علی نے دیارونا کو بتایا کہ اس نے ان سے کہا کہ "ان لوگوں پر پوری قوت سے حملہ کریں جو موصل پر حملے میں ملوث ہیں"، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ "گروہ فدائین کو زیادہ کثرت سے صرف دو صورتوں میں استعمال کرتا ہے، دیگر عناصر کے لیے راستہ صاف کرنے کے لیے حملوں میں، یا اس پر اور اس کی چوکیوں پر بڑے حملوں کے خلاف بے دھڑک دفاع میں۔"

انہوں نے کہا، "موصل کے معاملے میں، یہ لگتا ہے کہ تنظیم نے اس کا مکمل ادراک کر لیا ہے جو آخری نتیجہ ہو گا اور شہر کو اپنے ہاتھوں سے نکلنے کو لٹکانے کے لیے خودکش حملہ آور استعمال کر کے پیش بندی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہم عراق اور ہر مسلمان ملک میں کفار کی جانب سے مسلمانوں پر حملہ کی شدید مذمّت کرتے ہیں۔ اور ہم ان کی حمایت کرنے والے ہر مسلمان کو مرتد اور کافر سمجھتے ہیں۔ آج مسلمان مسلمانوں کے قتلِ عام پر خوش ہیں۔ کفار مسلمانوں کے بچوں پر اپنے ہتھیاروں کے تجربے کرتے ہیں۔ غلیظ ترین کفار، شعیہ اس جنگ کو شدید تر کر رہے ہیں۔ آئی ایس آئی ایل، وہ جو بھی ہیں، ”اللہ انہیں کفار کے خلاف فتح یاب کرے۔“

جواب

عمدہ مضمون

جواب