نوجوان

پاکستان نے نوجوانوں کے لیے مثبت سرگرمیاں پیش کر کے عسکریت پسندی کو واپسی کا رستہ دکھا دیا

دانش یوسفزئی

24 اکتوبر کو سکول میں وقفہ کے دن کے دوران جمرود، خیبر ایجنسی میں طالبِ علم والی بال کھیل رہے ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

24 اکتوبر کو سکول میں وقفہ کے دن کے دوران جمرود، خیبر ایجنسی میں طالبِ علم والی بال کھیل رہے ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

پشاور — وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں پاکستان کے عسکری آپریشن کے ذریعے امن کی راہ ہموار کیے جانے کے بعد مقامی حکومتیں اور این جی اوز کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں کی بحالی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

خیبر ایجنسی کے سپورٹس مینیجر راحد گل نے کہا کہ جیسے جیسے فاٹا کئی برسوں کے تشدد اور دہشت سے بحال ہو رہا ہے، فاٹا کے نوجوانان کی بحالی کے لیے متعدد چیلنجز درپیش ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو سیرحاصل سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے مقصد سے تربیتی نشستیں، آگاہی مہمّیں، ثقافتی میلے اور کھیلوں کی تقاریب اس عمل میں مددگار ہو سکتی ہیں۔

گل نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ایک دہائی سے زائد کی عسکریت پسندی کے بعد خیبر ایجنسی میں امن بحال ہوا ہے، [تاہم ابھی تک] واپس لوٹنے والے قبائلی عوام اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے جاں کنی کر رہے ہیں۔“

انہوں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا، ”[نوجوان] دن بھر یہ گپیں ہانکا کرتے کہ کونسی دہشتگرد تنظیم زیادہ طاقتور اور بارسوخ ہے۔ نوجوان بچوں کو بقا کے بہتر موقع کے لیے دہشتگرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کے بارے میں باتیں کرتے دیکھنا دلسوز تھا۔“

انہوں نے کہا، ”اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ اب ہمارے بچے عسکریت پسندوں کی بجائے کرکٹ، فٹبال اور مارشل آرٹس کے ہیروز کی باتیں کرتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ فاٹا نے قومی اور بین الاقوامی معیار کے متعدد ایتھلیٹ پیدا کیے ہیں جو نوجوانوں کے رول ماڈلز بننے کے اہل ہیں۔ ”یہ ایک مثبت علامت ہے اور ہم پرامید ہیں کہ ہماری نسل کے پاس ایک پختہ مستقبل ہو گا۔“

انہوں نے کہا، ”عوام، بالخصوص نوجوانوں کو ترغیب، اور فاٹا میں امن کو فروغ دینے کے لیے، حکومت نے مختلف علاقوں میں کھیلوں اور ثقافت کی متعدد تقاریب کا منصوبہ بنایا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ لنڈی کوتل اور وادیٔ تیراہ میں متعدد ٹورنامنٹ منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ، حکام نے پیامِ امن کے فروغ کے لیے نوجوانوں کو مشغول رکھنے کے لیے روائتی کھانوں کے ساتھ ثقافتی میلوں اور ایک جیپ ریلی جیسی متعدد دیگر سرگرمیوں کا بھی آغاز کیا ہے۔

کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کا احیاء

فروغِ امن کے لیے 23 اکتوبر کو باڑہ سب ڈویژن، خیبر ایجنسی کے علاقہ آقاخیل میں ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا، جس میں پشاور اور خیبر ایجنسی سے تقریباً 50 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔

آقاخیل کے ایک 21 سالہ رہائشی راشد خان نے کہا کہ وہ اور اس کے دوست گزشتہ ہفتے کے دوران کرکٹ میچ دیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہے۔

اس نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”یہ ایک اچھا موقع ہے۔ میرے تمام دوست اکٹھے ہوتے ہیں اور ہم کرکٹ میچ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مدت ہوئی کہ ہم نے ایجنسی کی سطح پر ایسی صحت مند اور پر لطف سرگرمی دیکھی ہو۔“

خان نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے اس موقع پر تحفظ کی ذمہ داری ادا کی۔

خیبر ایجنسی کے سینیئر صحافی اشرف الدین پیرزادہ نے کہا کہ فاٹا میں فوج کی جانب سے جون 2014 کے جنوبی وزیرستان میں کیے گئے آپریشن ضربِ عضب جیسی جارحانہ کاروائیوں کے آغاز سے قبل عسکریت پسندوں نے خطے کے متعدد کھیل کے میدان اور میلوں کے مقامات تباہ کر دیے تھے۔

انہوں نے فاٹا میں سلامتی کی صورتِ حال کے منقلب ہونے کو پاک فوج کے آپریشنز کے مرہونِ منّت قرار دیتے ہوئے اس کی ستائش کی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”میں نے ماضی میں دہشتگردی کی متعدد کاروائیوں ۔۔۔۔ کا مشاہدہ کیا۔ [دہشگردوں نے] عوامی اجتماعات کو نشانہ بنایا اور بعض اوقات نوجوانوں کو ہراساں کیا۔“

انہوں نے کہا، ”2008 سے 2014 تک قبائلی نوجوان کھیل کے میدانوں میں کھیلنے کے صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اس عرصہ میں والدین اکثر اپنے بچوں کو تحفظ کی غرض سے اپنے گھروں ہی میں رہنے کا پابند رکھتے۔

پیرزادہ نے کہا، ”اب سب لوگ فاٹا میں امن محسوس کر سکتے ہیں اور باہر کھیلی جانے والی کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں لوگ بلند آواز میں موسیقی بجا رہے ہیں اور تقاریب کا انتظام کر رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں دہشتگردی اور عسکریت پسندی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ تھا۔“

انہوں نے کہا کہ فاٹا میں امن کی بحالی حکومت اور قبائل، ہر دو کے لیے ”ایک بڑی کامیابی“ ہے۔

انہوں نے کہا، ”اگر صورتِ حال چند برس مزید ایسی ہی رہتی، تو یہ ایک بھیانک خواب ہوتا کیوں کہ نوجوانوں کے پاس دہشتگرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔“

انہوں نے کہا، ”فاٹا میں کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کی واپسی ایک رحمت ہے اور معاشرے کے لیے ترقی کی ایک علامت ہے۔“

انہوں نے کہا کہ بے روزگار نوجوان شدت پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے یہاں بھرتی کی زد میں ہوتے ہیں، جو انہیں روپیہ اور تحفظ کی پیشکش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سب کے لیے ملازمت پیدا نہیں کر سکتی، لیکن کھیلوں کے ٹورنامنٹ اور میلوں جیسی تقاریب نوجوانوں کے صحت بخش سرگرمیوں میں مشغول ہونے کو ممکن بناتی ہیں۔

نوجوانوں کے لیے مثبت اور صحت مند مواقع کی فراہمی

ایک مقامی فلاحی تنظیم، خیبر یوتھ فورم کے صدر عامر آفریدی نے کہا، ”نوجوانوں کے لیے صحت بخش اور تعمیری تفریحی سرگرمیاں کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں اور حکومت کو ایسی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور ان کی معاونت کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے۔ ایسے اقدامات قبائلی پٹی میں مخفی ہنر کو واشگاف کرنے میں مدد گار ہوں گے۔“

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے علاوہ، فاٹا کے نوجوانوں کو درپیش ایک اور بڑا خطرہ منیشات کا عام استعمال ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری سرگرمیوں میں مشغول رہنا چاہیئے۔“

آفریدی نے نوجوانوں سے فاٹا میں دیرپا امن کے قیام کے لیے ایک مثبت کردار ادا کرنے کی اپیل کی، کیونکہ سیکیورٹی فورسز اور قبائل نے اس خطے کو عسکریت پسندوں سے واپس حاصل کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں۔

انہوں نے کہا، ”مجھے خوشی ہے کہ فاٹا کی پولیٹیکل انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز نے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لیے گہری دلچسپی لی ہے۔ کھیلوں اور ثقافتی تقاریب کے ساتھ ساتھ، انہوں نے نوجوانوں کی مشاورت اور مدد کے لیے تربیتی اور آگاہی کے پروگرامز کا بھی آغاز کیا ہے۔“

تربیتی پروگرامز نے قبائلی نوجوانوں کو ملازمت کے متعدد ہنر اور چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے طریقے سکھائے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500