صحت

فاٹا کے ہسپتالوں میں طبی عملے کی ڈیوٹی پر واپسی

از اشفاق یوسفزئی

20 اکتوبر کو مہمند ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے شعبہ بصارت بیرونی مریضان میں ایک ڈاکٹر اسکول کے بچوں کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [بشکریہ شعبۂ صحت فاٹا]

20 اکتوبر کو مہمند ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے شعبہ بصارت بیرونی مریضان میں ایک ڈاکٹر اسکول کے بچوں کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [بشکریہ شعبۂ صحت فاٹا]

پشاور – وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں جبری طور پر کام کرنے سے روکے گئے طبی ماہرین کام پر واپس لوٹ رہے ہیں اور صحت حکام اور مقامی مکینوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں صحت کی دیکھ بھال بہتر ہو رہی ہے۔

جنوبی وزیرستان ایجنسی میں ایک طبی افسر، ڈاکٹر نور جمال نے کہا، "سنہ 2010 میں جب طالبان نے ہمیں دھمکی دے کر کام کرنے سے روکا تو ہم نے خوف کے مارے طویل چھٹیاں لے لیں، لیکن سنہ 2015 میں جب پاکستانی فوج نے علاقے کو خالی کروا لیا اور امن قائم کر دیا تو ہم اپنی ملازمتوں پر واپس لوٹ آئے۔"

نور نے کہا کہ وہ اور تقریباً ایک درجن دوسرے ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ کے ارکان اپنی حفاظت کے پیش نظر دیگر مقامات پر منتقل ہو گئے تھے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکریت پسندوں کو بھگانے اور صحت مراکز کے بلاتعطل افعال کا راستہ کھولنے کے لیے ہم فوج کے شکرگزار ہیں۔"

بہتریاں پہلے ہی ہو چکی ہیں

ایک مقامی باشندے، مشفیق احمد نے کہا کہ انہوں نے صحت مراکز کے بہتر حالات کا براہِ راست مشاہدہ کیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایک ہفتہ قبل، سرجنوں نے میرے بیٹے کا اپینڈکس کا آپریشن کیا تھا اور اب وہ ٹھیک ہے۔ دو سال قبل، چھوٹی موٹی بیماریوں کے علاج کے لیے لوگوں کو بنوں اور خیبرپختونخوا (کے پی) کے دیگر شہروں میں جانا پڑتا تھا کیونکہ مقامی صحت مراکز پر ڈاکٹر نہیں تھے۔"

انہوں نے کہا، "صحت مراکز کے افعال میں قابلِ ذکر بہتری آئی ہے کیونکہ ڈاکٹر اور دیگر عملہ وانا، جنوبی وزیرستان میں ایجنسی کے ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں موجود ہے۔"

فساد کی ایک طویل تاریخ

طالبان جنگجوؤں نے برسوں تک صحت ماہرین کو نشانہ بنایا، سنہ 2005 کے بعد سے پورے فاٹا میں 150 صحت مراکز کو تباہ کیا اور شہریوں کو علاج کی سہولت سے محروم کر دیا۔

ڈاکٹر غلام قادر نے کہا کہ طالبان جنگجوؤں نے کے پی میں صحت مراکز اور صحت کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سنہ 2005 کے بعد سے جنگجوؤں نے اپنے مریض مخالف ایجنڈے کے جزو کے طور پر، کے پی میں ہسپتالوں، ڈسپنسریوں اور بنیادی صحت یونٹوں سمیت 70 مراکز پر بمباری کی۔"

انہوں نے کہا، "صرف مالاکنڈ ڈویژن میں ہی، عسکریت پسندوں نے سنہ 2007 سے 2009 تک صحت کے 55 مراکز کو نقصان پہنچایا، لیکن اب صورتحال معمول پر واپس آ گئی ہےاور تمام نقصان زدہ مراکز کی تعمیرِ نو ہو چکی ہے۔"

لیکن اب، امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے ساتھ، مقامی حکومتیں اور سیکیورٹی فورسز صورتحال کو معکوس کرنے کے لیے طبی اہلکاروں کے ساتھ مل کر مصروفِ عمل ہیں۔

ایک طالبان خودکش بمبار نے اپریل 2013 میں باجوڑ ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال پر حملہ کیا تھا، جس پر حکام نے ہسپتال کو بند کر دیا تھا جس کے 135 ڈاکٹر اور 110 نیم پیشہ ور طبی عملے کے ارکان ماہانہ تقریباً 12،000 مریضوں کا علاج کرتے تھے۔

ہسپتال میں ایک اعلیٰ طبی عہدیدار، ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ پاکستانی فوج کی مدد کے ساتھ ہسپتال کو صرف ایک ماہ کے تعطل کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اب فوج ہسپتال کی حفاظت پر مامور ہے۔ وہ مریض جو طالبان کی غیر قانونی حکمرانی کے دوران علاج کی غرض سے چارسدہ اور پشاور جاتے تھے ان یہیں علاج کروا رہے ہیں۔"

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری ڈاکٹرغلام قادر کے مطابق، فاٹا کے مقامی ہسپتالوں میں تقریباً 20،000 عملے کا نصف طالبان کی ظلم و ستم سے بچنے کے لیے چھٹی پر چلا گیا یا اپنی ڈیوٹیوں سے غیرحاضر رہا، لیکن اب سب اپنی ملازمتوں پر واپس لوٹ آئے ہیں۔

مہمند ایجنسی ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں ایک انچارج نرس شمیم آراء نے کہا کہ سنہ 2012 میں جب طالبان نے اسے ہسپتال سے دور رہنے کی تنبیہ کی تو وہ چارسدہ چلی گئی تھی۔

اعتماد کی واپسی

فوج کی جانب سے علاقے کو آزاد کروا لینے کے بعد، وہ ایک سال بعد واپس لوٹ آئی۔

ایک ٹیلی فون انٹرویو میں انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اب میں ڈیوٹی پر واپس آ گئی ہوں۔ میرے زیادہ تر رفقائے کار جنہوں نے علاقہ چھوڑ دیا تھا وہ بھی امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے پر واپس لوٹ آئے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "صحت اہلکاروں کو طالبان کی دھمکیوں نے صحت کی فراہمی کو بری طرح متاثر کیا۔ بہت سے مریضوں میں قابلِ انسداد پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "مریض، خصوصاً خواتین، صحت اہلکاروں کی اپنی ڈیوٹیوں پر واپسی کے بعد سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔"

فاٹا محکمۂ صحت کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر جواد حبیب خان نے کہا کہ اپنی 9 ملین کی آبادی کو خدمات فراہم کرنے کے لیے فاٹا میں کافی تعداد میں صحت مراکز موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی نے نظامِ صحت کو غیر فعال بنا دیا تھا، لیکن فوجی آپریشنوں نے چیزوں کو واپس راستے پر ڈال دیا ہے اور فاٹا کے صحت مراکز میں لوگ مفت علاج وصول کر رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سات قبائلی اضلاع میں 26 ہسپتال، 10 دیہی صحت مراکز اور 419 علاقائی صحت مراکز ہیں جن میں ہر سال تقریباً 5 ملین مریض آتے ہیں۔ ہم معیاری علاج فراہم کرنے کے لیے سازوسامان سے لیس مراکز پر تمام خصوصی سہولیات پیش کرتے ہیں۔"

خواتین اور بچوں کو نقصان

طالبان کی جانب سے فاٹا اور کے پی میں صحت مراکز کی تباہی نے خواتین اور بچوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، پاکستان میں سالانہ 250 خواتین فی 100،000 زچگیاں انتقال کر جاتی ہیں، لیکن عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال بدتر ہے، جہاں تقریباً 300 خواتین فی 100،000 زچگیاں انتقال کرتی ہیں۔

فاٹا محکمۂ صحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر افتخار علی نے کہا، مزید برآں، سنہ 2012 میں، طالبان نے فاٹا میں ویکسینیشن میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے دھمکی اور تحریف کو استعمال کیا، جس سے پولیو کی وباء پھیلی۔

ڈاکٹر افتخار نے حالیہ برسوں میں پولیس کے واقعات میں کمی کے لیے پاکستانی فوج کو سب سے زیادہ نمبر دیئے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سنہ 2014 میں، [فاٹا میں] 179 واقعات درج ہوئے، جو کہ ملک میں کسی بھی صوبے سے زیادہ تھے، سنہ 2015 میں 16 اور سنہ 2016 میں ابھی تک صرف دو کیونکہ یہ ہماری 1 ملین بچوں میں سے 99 فیصد کو ویکسین پلانے کی قابلیت تھی۔"

انہوں نے کہا، "فوجی کارروائی ان بچوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئی ہے جو اب پولیو سے محفوظ ہیں۔ سپاہی ناصرف قطرے پلانے والوں کی حفاظت کرتے ہیں؛ بلکہ پولیو کے قطرے بھی پلاتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500