سفارتکاری

پاکستان کی جانب سے افغانستان کے حزبِ اسلامی کے ساتھ معاہدے کا خیر مقدم

محمّد شکیل

گزشتہ نومبر اسلام آباد میں پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمّد نواز شریف (دائیں) اس وقت کے نائب افغان وزیرِ خارجہ اخلیل احمد (بائیں) سے ملاقات کر رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان حکومت اور حزبِ اسلامی کے درمیان ایک حالیہ امن معاہدہ کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ [بشکریہ پاکستانی پریس اینڈ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ]

گزشتہ نومبر اسلام آباد میں پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمّد نواز شریف (دائیں) اس وقت کے نائب افغان وزیرِ خارجہ اخلیل احمد (بائیں) سے ملاقات کر رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان حکومت اور حزبِ اسلامی کے درمیان ایک حالیہ امن معاہدہ کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ [بشکریہ پاکستانی پریس اینڈ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ]

پشاور — سیاسی و سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کی قیادت میں ایک مسلح گروہ حزبِ اسلامی (ایچ آئی) کے مابین حالیہ امن معادہ سیاسی استحکام کی جانب ایک مثبت اقدام ہے اور پاکستان اور افغانستان، ہر دو کے لیے مثبت نتائج کا باعث ہو گا۔

پاکستانی حکام نے یہ کہتے ہوئے امن معاہدہ کا خیرمقدم کیا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان اور تمام خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

افغان صدر اشرف غنی اور ویڈیو لنک پر سامنے آنے والے حکمت یار نے 29 ستمبر کو معاہدے کو حتمی شکل دی۔

معاہدے کی شرائط کے تحت، ایچ آئی نے دشمنیاں ختم کرنے، دہشتگرد گروہوں کے ساتھ روابط توڑ دینے اور افغان آئین کا احترام کرنے پر اتفاق کیا۔

غنی نے تقریب میں کہا، ”یہ طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے لیے موقع ہے کہ وہ دکھا دیں کہ آیا ان کا فیصلہ: حزبِ اسلامی کی طرح عوام کا ساتھ دینے اور امن کے کاروانِ محترم میں شریک ہونے کا ہے، یا ۔۔۔ خونریزی جاری رکھنے کا ہے۔“

پاکستان کی جانب سے افغان سربراہی میں امن معاہدے کی حمایت

حکومتِ پاکستان نے امن معاہدے کی تکمیل کو ”حوصلہ افزا“ قرار دیا۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ نے 29 ستمبر کو ایک بیان میں کہا، ”پاکستان نے مسلسل اس امر پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں تنازعہ کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ افغانستان میں دیرپا امن واستحکام لانے کے لیے افغان-الاصل اور افغان-سربراہی میں امن کے عمل کے ذریعے ایک سیاسی گفت و شنید سے حاصل شدہ تصفیہ معقول ترین انتخاب ہے۔“

بیان میں کہا گیا، ”ہم مخلصانہ طور پر امید کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ دیرپا امن کے حصول کے لیے افغان حکومت اور دیگر افغان باغی گروہوں کے درمیان اسی طرز کے معاہدوں کے لیے ایک موقع فراہم کرے گا۔“

معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ و قومی سلامتی، سرتاج عزیز نے 5 اکتوبر کو افغانستان پر برسلز کانفرنس کے حواشی میں غنی سے ملاقات کی۔

عزیز نے پاکستان کی پرامن، مستحکم اور آسودہ حال افغانستان کی خواہش کو دہرایا اور کہا کہ افغانستان میں دیر پا امن پاکستان کی ترقی و استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

خبروں کے مطابق، طرفین نے سیاسی طور پر مصالحت شدہ تصفیہ کے ذریعے افغانستان میں امن و مفاہمت کے لیے کاوشیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

افغانستان کے لیے ایک 'سنگِ میل کامیابی'

ایک پاکستانی سینیئر صحافی اور سیکیورٹی تجزیہ کار شمیم شاہد نے کہا کہ ایچ آئی اور حکومتِ افغانستان کے درمیان یہ امن معاہدہ غنی کے کیمپ کا عزم بلند کرے گا، جسے طالبان کے خدشہ سمیت متعدد محاذوں پر مسائل کا سامنا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”2001 سے اب تک پہلے امن معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا اشرف غنی کی سنگِ میل کامیابی ہے۔ یہ نہ صرف افغانستان کی سیاسی صورتِ حال کو بدلے گا بلکہ خطے پر اس کے بطورِ کل نہایت دور رس اثرات ہوں گے۔“

انہوں نے کہا، ”عسکریت پسندی کے آغاز سے ہمارے پورے خطے نے بدترین حالات دیکھے ہیں، اور افغانستان اور پاکستان کے عوام قیامِ امن کو اپنی بقا اور ترقی کے لیے شرطِ اوّل خیال کرتے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”امن معاہدے کے بعد افغانستان میں ہونے والا استحکام مستقبل میں تعاون کی حکمتِ عملی پر فیصلہ کرنے میں دونوں ممالک کے لیے مدد گار ہو گا۔“

انہوں نے کہا کہ افغان امن معاہدہ کے لیے پاکستان کی حمایت دونوں جانب شورشی گروہوں کو مفاہمت کا ایک پیغام پہنچائے گی، جو جارحیت کو ترک کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

انہوں نے کہا، ”افغانستان اور پاکستان، ہر دو میں عسکریت پسندی سے متاثر ہونے والے عوام ایک صبحِ نو کی دہلیز پر ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ ”باہمی مدد و معاونت کے ذریعے فروغِ امن کے نئے طریقے دریافت کرنے“ میں طرفین کے لیے مددگار ہو گا۔

عسکریت پسندوں کو مذاکرات پر آمادہ کرنا

افغانستان کے لئے پاکستان کے سابق سفیررستم شاہ مہمند نے بتایا، " یہ قطعی طور سے ثابت ہوچکا ہے کہ مذاکرات ان مسلسل کوششوں کا ایک عمل ہے جو، کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے ساتھ بیٹھنے کے طریقہ کار کی نظیر یا قوائد کے مجموعہ، ایک ثالث کی موجودگی، کے ماتحت ہیں۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "افغانستان اور حزب اسلامی کے درمیان معاہدہ کو پاکستان میں انتہاپسند عناصر کو مدعو کرنے کے لئے ایک مثال بنایا جا سکتا ہے۔"

یہ ممکن ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کو مذاکرات پر آمادگی کے لئے راستے کی ضرورت ہو، انہوں نے بتایا۔ "ہمسایہ افغانستان [میں معاہدے] کی مثال انھیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے زیادہ معقول انتخاب کی دستیابی کے ادراک میں مدد دے سکتی ہے۔"

یہ بتاتے ہوئے کہ مشترکہ سرحدوں، ایک مذہب اور ثقافتی مماثلت کی بنا پر مختلف شعبوں میں افغانستان اور پاکستان کی باہمی دلچسپی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی استحکام، دونوں ممالک کی پرامن بقائے باہمی کا فیصلہ کرنے میں ایک عنصر ہو گا۔

"معاہدے کے نتیجے میں اشرف غنی کی حکومت کو سیاسی استحکام ملے گا اور تعاون کے فروغ کے لئے خوشگوار ماحول کا راستہ ہموار ہو گا،" رستم نے بتایا۔ "دونوں ممالک [کے درمیان] تعاون سے، بداعتمادی کا خاتمہ ہو گا۔"

پاکستان-افغانستان کے تعلقات کا فروغ

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکورٹی سیکریٹری، پشاور کے بریگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے بتایا، پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کو عام مسائل کے حل کے لئے تعاون اور ایک دوسرے کی ترجیحات اور مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "موجودہ صورتحال میں افغانستان، بغاوت سے معیشت تک کے بے شمار چیلنجز سے نبٹنے کے لئے ہمسایوں کی مدد کے حصول پر مجبور ہے۔"

"حکمت یار کے ساتھ امن معاہدہ کو خوش آئند اور افغان حکومت کی ایک اہم سیاسی کامیابی سمجھنا چاہیئے،" انہوں نے بتاتے ہوئے مزید کہا کہ معاہدہ کا اثر افغانستان اور پاکستان دونوں کے لئے کثیرالجہتی ہوگا۔

انہوں نے بتایا، "پاکستان کا خلوص واضح ہے کیونکہ اس نے امن معاہدہ کا خیرمقدم کیا ہے اور جاری امن عمل کے لئے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500