تفریح

عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے کے پی کے سینما کا احیاء

از عدیل سعید

فلم بین 19 اکتوبر کر پشاور میں پکچر ہاؤس سینما میں داخل ہوتے ہوئے۔ سنہ 2014 میں صوبے کے سینماؤں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے آنے والے زوال کے بعد بڑی اسکرین پر تفریح کے میں واپس آ رہی ہے۔ [عدیل سعید]

فلم بین 19 اکتوبر کر پشاور میں پکچر ہاؤس سینما میں داخل ہوتے ہوئے۔ سنہ 2014 میں صوبے کے سینماؤں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے آنے والے زوال کے بعد بڑی اسکرین پر تفریح کے میں واپس آ رہی ہے۔ [عدیل سعید]

پشاور -- خیبرپختونخوا (کے پی) میں مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے سینما گھروں پر حملوں اور فلمسازوں کو دھمکیوں کے بعد، پشاور میں فلم کے شائقین کے لیے، سینما جانا اچھے وقتوں کی ایک یاد بن گیا تھا۔ دہشت گردی سنہ 2007 سے 2014 تک جاری رہی۔

اب، فوجی آپریشن ضربِ عضب اور عسکریت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جاری سیکیورٹی آپریشنوں کی مہربانی سے امن بحال ہونے کے ساتھ، کے پی میں فلمی صنعت تیز رفتاری کے ساتھ احیاء کی نشانیاں ظاہر کر رہی ہے۔

فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا جو آج تک جاری ہے۔

فروری 2014 میں، پشاور میں شمع سینما اور پکچر ہاؤس کو گرنیڈ حملوں کے ایک سلسلے نے ہلا کے رکھ دیا تھا، جس میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملوں نے بہت سے مکینوں کو ڈرا کر فلم دیکھنے جانا ترک کروا دیا تھا۔

سنہ 2007 اور 2014 کے درمیان کے پی اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں اپنے دہشت کے دور میں عسکریت پسندوں نے فلم سازوں، فنکاروں اور گویوں کو بھی خوفزدہ کیا تھا۔

دہشت گردی نے مقامی فلموں کی تیاری کو انتہائی کم کر دیا تھا، جس سے فلم شائقین کے پی میں سینما کی ثقافت اور بڑی اسکرین پر تفریح کے مستقبل کے بارے میں ایک غیریقینی صورتحال کی حالت میں آ گئے تھے۔

مقامی فلمی صنعت کا عروج

صنعت کے بھیدیوں کا کہنا ہے کہ تاہم، گزشتہ دو برسوں میں صورتحال نے ایک مثبت موڑ لینا شروع کر دیا ہے۔

پشاور میں ایک سینما کے مالک، فلم ساز اور اداکار شاہد خان نے کہا، اب پشتو، اُردو اور انگریزی میں اپنی پسندیدہ فلمیں بے خوف ہو کر دیکھتے ہوئے، سینکڑوں فلم بین مقامی فلمی صنعت کے عروج میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "امن و امان کی صورتحال میں بہتری آنے کے بعد ہمارے کاروبار میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے، اور سینما جانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ سنہ 2014 میں فوجی آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے سے قبل، کے پی شو بزنس سالانہ صرف چھ یا سات فلمیں تیار کرتا تھا، جو کہ 30 یا 40 فیصد نشستیں بھرے ہوئے سینما گھروں میں چلائی جاتی تھیں۔

شاہد نے کہا، "اداکاروں اور ٹیم کے دیگر ارکان پر حملوں کے خوف سے ہم نے کے پی میں خوبصورت مقامات پر فلم بندی کرنا بند کر دیا تھا۔"

وہ بے رحم تصویر اب قصۂ پارینہ بن گئی ہے۔

انہوں نے کہا، "گزشتہ دو برسوں میں، کے میں پشتو فلموں کی ایک ریکارڈ تعداد تیار کی گئی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ سنہ 2015 میں، کے پی کی صنعت نے پشتو زبان کی تقریباً 16 فلمیں تیار کیں۔ اس سال، اسی رفتار سے کام کرتے ہوئے، صنعت نے نو فلمیں تیار کی ہیں اور دسمبر سے پہلے مزید پانچ فلمیں ریلیز کرنے کا منصوبہ ہے۔

شاہد نے کہا، "انتہاپسندی ۔۔۔ نے ہماری علاقائی فلمی صنعت کو نقصان پہنچایا، لیکن یہ تفریح کے اس ذریعے کو مکمل بند کرنے میں ناکام رہی۔"

انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پشاور میں، سینما گھروں کی تعداد 15 سے کم ہو کر 7 ہو گئی تھی، لیکن فلمی ثقافت سالم رہی اور عوام بڑی اسکرین کے نظاروں سے لطف ہو رہے ہیں۔

فلمی صنعت کو حکومتی، نجی معاونت درکار ہے

صنعت کے بھیدی اس کاروبار کو مضبوط کرنے کے طریقوں پر بحث کر رہے ہیں۔

پشاور کے فلمی ہدایتکار ارشد خان، جنہوں نے 80 سے زائد پشتو فلموں میں ہدایتکاری کی ہے، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کے پی حکومت کو فلمی صنعت میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے تاکہ نجی شعبہ بھی آگے بڑھے۔

انہوں نے کہا، "صنعت کو سرکاری سرپرستی کی ضرورت ہے، اور حکومت کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس نئے سینما گھر تعمیر کرنے چاہیئیں۔"

انہوں نے کہا کہ کے پی حکومت اور فلم شائقین یکساں فکرمند ہیں کہ صوبے کی فلمی صنعت کو نظرانداز کرنا اس کے مٹ جانے کی طرف لے جا سکتا ہے۔

پورے کے پی میں اعدادوشمار سینما گھروں پر - محض دہشت گردی ہی نہیں -- ریئل اسٹیٹ کی قیاس آرائی کا دباؤ بھی ظاہر کرتے ہیں، کیونکہ ڈویلپرز حضرات پرکشش خریداری مراکز تعمیر کرنے کے خواہشمند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سنہ 2007 کے بعد سے، کے پی میں مردان، نوشہرہ، ایبٹ آباد اور بنوں اضلاع میں تمام سینما گھر ریئل اسٹیٹ کی چالوں میں کھو چکے ہیں۔

کلچرل جرنلسٹس فورم کے پی کے صدر، پشاور کے احتشام تورو نے کہا کہ عوام، جو کہ دہشت گردی کی شکست میں پیش رفت سے دلیر ہو چکے ہیں، سینما گھروں میں واپس آ رہے ہیں، اور کے پی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ فلموں اور سینما گھروں کے معیار کو بہتر بنائے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سینما کی ثقافت بہت حد تک سالم ہے اور مذہبی انتہاپسندوں کے جبر کے ذریعے ختم نہیں ہو سکتی۔"

"لیکن، " انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "اسے پُرامن ماحول، ٹیکنالوجی کی ترقی اور لوگوں، خصوصاً نئی نسل کو راغب کرنے کے لیے معیار میں بہتریوں کی شکل میں معاونت کی بھی ضرورت ہے۔"

تورو نے کہا کہ کے پی حکومت کو چاہیئے کہ تفریح فراہم کرنے کے لیے تمام ہاؤسنگ سوسائٹیوں (مضافات) میں سینما گھر قائم کرے۔

سینما گھر صحت مند تفریح مہیا کرتے ہیں، معاشرے کو متحد کرتے ہیں

ایک تعلیم دان، سیاسی تجزیہ کار اور مقامی ثقافت کے ایک محقق، پشاور کے خادم حسین نے کہا، "سینما گھر صحت مند تفریح کا ایک ذریعہ ہیں اور عسکریت پسندوں نے ایسے مقامات جہاں لوگ جمع ہو سکیں کو تباہ کرنے کے لیے انہیں نشانہ بنایا۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ ثقافتی سرگرمیاں اور تفریحی مقامات عوام کو متحد کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

انہوں نے کہا، "انتہاپسند عناصر لوگوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے تھے" اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سینما گھروں اور فلمسازوں کو نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا، "سینما کی ثقافت میں احیاء نظر آ رہا ہے، ایک اچھی علامت جو ہمارے معاشرے میں امن کی بحالی کی عکاسی کرتی ہے۔"

حسین نے حکام سے مطالبہ کیا کہ ان کامیابیوں سے فائدہ اٹھائیں اور فکموں کو بہتر بنانے اور زیادہ فلم شائقین کو راغب کرنے کے لیے قانون سازی کریں، موزوں مجالس عاملہ اور درسگاہیں تیار کریں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500