حقوقِ انسانی

انٹیلی جنس رپورٹ: طالبان خودکش دھماکوں کے لیے بچوں کو اغوا کرتے ہیں

عبدل غنی کاکٹر

بلوچستان میں ایک ملزم مقامی لیویز فورس کی تحویل میں ہے جس پر مبینہ طور پر ایک کمسن بچی کو اغوا کرنے کا الزام ہے۔ حکام کے مطابق اسے پشین ڈسٹرکٹ کے علاقے اسماعیل زئی سے دس ستمبر کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔ ]عبدل غنی کاکٹر[

بلوچستان میں ایک ملزم مقامی لیویز فورس کی تحویل میں ہے جس پر مبینہ طور پر ایک کمسن بچی کو اغوا کرنے کا الزام ہے۔ حکام کے مطابق اسے پشین ڈسٹرکٹ کے علاقے اسماعیل زئی سے دس ستمبر کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔ ]عبدل غنی کاکٹر[

کوئٹہ - تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند بلوچستان اور پاکستان کے دوسرے دور دراز کے علاقوں سے بچوں کو اغوا کر رہے ہیں تاکہ انہیں خودکش بمباروں کے طور پر استعمال کر سکیں۔ یہ بات انٹیلی جنس کے حکام نے ایک رپورٹ میں آشکار کی جسے وفاقی حکومت کے پاس جمع کروایا گیا ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے انٹیلی جنس کے سینئر اہلکار محمد عمران نے کہا کہ "ایک ممتاز انٹیلی جنس ایجنسی کے انسداد دہشت گردی کے ڈیسک کی طرف سے جمع کروائی جانے والی ایک رپورٹ میں آشکار ہوا ہے کہ جماعت الاحرار فدائین کے گروہ کو پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے بچوں کو اغوا کرنے کا کام سونپا گیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے بچے عسکریت پسندوں کا آسان حدف ہیں کیونکہ وہ اکثر اپنے گھروں سے کام یا کھیلنے کے لیے نکلتے ہیں اور والدین ان کی نگرانی نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ افغان مہاجر بچے بھی کافی زیادہ نشانہ بنتے ہیں کیونکہ وہ "غیر اندراج شدہ" ہیں۔

عمران نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ سیکورٹی افواج کی حراست میں موجود ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں سے ہونے والی تفتیش سے ظاہر ہوا ہے کہ "گزشتہ دو تین مہینوں میں عسکریت پسندوں نے بلوچستان کے مختلف حصوں سے ساٹھ سے زیادہ بچوں کو اغوا کیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ گرفتار ہونے والے عسکریت پسندوں نے ٹی ٹی پی کی حکمت عملی حکام کو بتائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند اور ان کے حامی بلوچستان کے مقامی قصبوں میں بھیس بدل کر کام کرتے ہیں اور بچوں کو اغوا کرنے کے بعد، وہ انہیں دوسرے علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں میں منتقل کر دیتے ہیں جہاں بچوں کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "وہ اغوا ہونے والے بچوں کی بہت زیادہ برین واشنگ کرتے ہیں اور انہیں خودکش بمبار بننے کے لیے تیار کرتے ہیں"۔

طالبان بچوں کے "شکار" پر

سینئر دفاعی اہلکار میمون سید نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ نے بڑے پیمانے پر طالبان کے عسکریت پسندوں کی ایک اہم قوت کے طور پر دوبارہ ابھرنے کی اہلیت کو ختم کر دیا ہے مگر خودکش دھماکے ابھی بھی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اس سے پہلے خیبرپختونخواہ (کے پی) اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں، عسکریت پسند مدرسوں کے طلباء کو بھرتی کر رہے تھے اور انہیں انسانی بموں میں بدل رہے تھے مگر مدرسوں میں اصلاحات اور ملک میں رجسٹریشن کے عمل کے باعث، عسکریت پسند گروہ اب اپنی بھرتی کی پالیسی کو بدل رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ انتہاپسند عالم اغوا ہونے والے بچوں کو سکھاتے پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو خودکش بمباروں کے طور پر تعینات کرنے سے پہلے ان کی چھہ سے سات مہینوں تک تربیت اور برین واشنگ کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ عسکریت پسند پاکستانی فوج سے شکست کھا رہے اس لیے وہ "بچوں کو اپنے جنگ کے آخری اور سب سے موثر ہتھکنڈے کے طور پر بھرتی کر رہے ہیں"۔

سید نے کہا کہ "تفتیش کے دوران، ہماری خصوصی ٹیمیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ طالبان اور دوسرے عسکریت پسند جو کہ مذہبی انتہاپسندی میں ملوث تھے اب اپنے آپ کو بچانے کے لیے زیادہ تر بچوں کو اغوا کرنے کی مہم پر ہیں کیونکہ انہیں پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بہت بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے"۔

طالبان کے بھرتی کے طریقوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا

وزارت داخلہ کے ایک اہلکار ناصر محمود نے کہا کہ "حکام بلوچستان کی قبائلی پٹی میں بہت محنت سے کام کر رہے ہیں تاکہ مقامی افراد میں عسکریت پسندوں کی حکمت عملی اور ان کے علاقوں میں ان کی ممکنہ موجودگی کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے"۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم نے تشویش رکھنے والے سیکورٹی حکام کے ذریعے مقامی افراد کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ چوکس رہیں اور اپنے بچوں پر نظر رکھیں"۔

"جنوب مغربی بلوچستان میں حکومت کی طرف سے سپانسر کردہ عوامی آگاہی کی مہم کامیاب ہو رہی ہے اور اس کے بہت سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں کیونکہ مقامی افراد کی مدد سے بہت سے عسکریت پسندوں کو اس وقت رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ہے جب وہ پشین اور قلعہ عبداللہ کے اضلاع سرغان ، سرانان، تورا شاہ اور دوسرے علاقوں میں بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ "عسکریت پسند گروہ بچوں کو بھرتی کرنے کے بہت سے طریقے استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ تاثر موجود ہے کہ بچوں کو کم شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "عسکریت پسند اکثر بچوں سے نگرانوں کی مدد سے کام کرواتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ عین وقت پر پیچھے نہ ہٹ جائیں۔ کچھ واقعات میں، اگر کسی خودکش بمبار بچے نے جائے وقوعہ سے بھاگنے کی کوشش کی تو نگران نے بچے کو ریموٹ ڈیٹونیٹر سے اڑا دیا"۔

ایک سینئر دفاعی تجزیہ نگار میجر (ریٹائرڈ) محمد عمر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ بچوں کے اغوا اور انہیں خودکش بمباروں کے طور پر استعمال کرنے کا ابھرتا ہوا رجحان بہت تشویش کا باعث ہے اور اس پر سیکورٹی کے اداروں کو فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت کو اس معاملے کو وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی غربت، مواقع کے نہ ہونے اور تعلیم تک رسائی نہ ہونے کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ عسکریت پسند جن قبائلی علاقوں میں بچوں کے اغوا میں ملوث ہیں وہ باقی کے بلوچستان کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ہیں"۔

عمر نے کہا کہ "عسکریت پسندوں کے لیے بچوں کو اغوا کرنا دور دراز کے علاقوں میں زیادہ آسان کام ہے کیونکہ ان کے پاس امداد کا ٹھوس نیٹ ورک اور مقامی امداد موجود ہے جس سے انہیں اپنے مطلوبہ احداف کا انتخاب کرنے میں مدد ملتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "خودکشی کے مشن کے لیے کم عمر نوجوانوں کو بھرتی کرنا آسان ہے اور خودکش بمبار بچے عسکریت پسندوں کی طرف سے استعمال ہونے والا ہلاکت خیز ترین ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی سے انتشار پھیل رہا ہے اور عسکریت پسند گروہوں کے مقاصد کی مدد ہو رہی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت کو قبائلی پٹی میں عسکریت پسندوں کے انتہائی جدید نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے انتہائی آگے کی حکمت عملی کو اختیار کرنا چاہیے"۔

اغوا کنندگان کے نیٹ ورک کو توڑنا "اولین ترجیح" ہے

بلوچستان کے داخلہ اور قبائلی امور کے وزیر میر سرفراز بگٹی نے دس اکتوبر کو بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں ایک تقریر کے دوران کہا کہ "بلوچستان کی حکومت نے تمام متعلقہ سیکورٹی ایجنسیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں اور ان کے مددگاروں کے خلاف سخت قدم اٹھائیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہماری اولین ترجیح ان گروہوں کو توڑنا ہے جو کہ بچوں کے اغوا میں ملوث ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بہت تشویش کا شکار ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمارے علاقے میں عسکریت پسندی کے انسداد کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہے ہیں۔ مقامی آبادی بھی ہمیں مطلوبہ امداد فراہم کر رہی ہے"۔

بگتی نے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف جاری مہمات میں ہونے والی بہت سی حالیہ کامیابیوں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ "سیکورٹی کی ایجنسیوں نے بہت سے عسکریت پسند گروہوں کو توڑا ہے۔ ہم ٹی ٹی پی اور ایسے دوسرے عسکریت پسند گروہوں کی صلاحیت کا خاتمہ کرنے کے لیے بہت قریبی طور پر کام کر رہے ہیں جو خودکش دھماکوں اور دیگر امن مخالف سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے میں ملوث ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ان حملوں میں بہت سے اہم عسکری کمانڈروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ منحوس طالبان اب ایسی غلیظ سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ ایک نہایت عمدہ اور چشم کشا تحریر۔ امّید ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے اس نئے رجحان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے گا۔

جواب