دہشتگردی

مہمند کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں بچ جانے والے متاثرین طالبان کی مذمت کرتے ہیں

اشفاق یوسف زئی

16 ستمبر کو مہمند ایجنسی کے خود کش بم دھماکے کے ایک زخمی مریض کو باجوڑ ایجنسی میں طبی امداد دی جارہی ہے۔ [تعاون فاٹا ہیلتھ سیکریٹرییٹ]

16 ستمبر کو مہمند ایجنسی کے خود کش بم دھماکے کے ایک زخمی مریض کو باجوڑ ایجنسی میں طبی امداد دی جارہی ہے۔ [تعاون فاٹا ہیلتھ سیکریٹرییٹ]

پشاور -- مہمند ایجنسی کی مسجد میں 16 ستمبر کے خود کش حملے میں جاں بحق ہونے والے نوجوان پاکستانیوں کے والدین عسکریت اور دہشت گردی کی سخت ترین لفظوں میں مذمت کر رہے ہیں۔

عید الاضحیٰ کے بعد جمعہ کی نماز کے دوران مہمند ایجنسی کی تحصیل انبار کے ایک گاؤں میں دھماکے سے کم سے کم 36 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق، دھماکے سے مسجد کا کچھ حصہ اور اس کا برآمدہ نمازیوں پرگر جانے اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی شاخ جماعت الاحرار نے، جسے اگست میں دہشت گرد گروہ قرار دیا گیا ہے، ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی مخالف مقامی امن کمیٹی کو نشانہ بنایا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا

اپنے پیاروں کی ناگہانی موت پر دکھ اور بے یقینی میں ڈوبے ہوئے جاں بحق ہونے والوں کے خاندان دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں اور عسکریت پسندی کے خلاف پاکستانی فوج کے آپریشن کی حمایت کرتے ہیں۔

مہمند ایجنسی کے رہائشی رنرا خان نے بتایا کہ وہ اس دن کو کبھی نہیں بھول سکے گا جب اس کے بچے بے قصور ہلاک کردیے گئے۔

مجھے پتہ چلا کہ میرے چار بیٹے حملے میں جاں بحق ہوگئے، انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ اس سے مجھے انتہائی گہرا دکھ ہوا اور غصہ آیا اور نتیجتاً میں نے دوسروں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے عسکریت پسندوں کے خلاف سرکاری مہم کی مکمل حمایت کا فیصلہ کر لیا۔

انہوں نے کہا کہحملہ اسلام کے خلاف ہے

"لوگوں کی جانب سے عسکریت پسندوں کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جارہی ہے، کیونکہ وہ اپنی دہشت گردی کو چھپانے کے لئے غلط طور پر اسلام کا نام استعمال کر رہے ہیں،" انہوں نے بتایا۔ "اسلام ایک امن کا مذہب ہے اور قتل کی اجازت نہیں دیتا۔"

تحصیل انبار کے رہائشی شامین گل اور اس کی بیوی اپنے 18 اور 16 سالہ دوبیٹوں کی شہادت کے بعد بالکل مایوس ہو گئے تھے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "طالبان نے ہمیں رنج وغم کے سمندر میں دھکیل دیا ہے، وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔"

مقامی امن کمیٹی کے ایک رکن گل نے بتایا، انسانیت کے ساتھ جو وہ کرتے رہے ہیں اس پر وہ کبھی بھی عسکریت پسندوں کو معاف نہیں کرے گا۔ اس نے عزم کیا کہ لوگوں کی بھلائی کی خاطر وہ امن کے لئے کام کرنا جاری رکھے گا۔

دہشتگردوں نے ”عذابِ الہٰی کو دعوت دی“

تحصیل عنبر میں بٹمینہ گاؤں کے ایک رہائشی اور سکول ٹیچر مرسلین شاہ نے کہا کہ مومنین کے جمع ہو کر خدا کی رحمتیں تلاش کرنے کے ایک مقدس مقام کو دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے پر عوام غضب ناک ہیں۔

انہوں نے کہا، ”عسکریت پسند عذابِ الہٰی کو دعوت دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مثالی شکست کا سامنا کر رہے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل طالبان قبائلی علاقہ جات میں حالات کا رخ موڑ دیتے تھے، لیکن اب وہ ختم ہو چکے ہیں۔“

بم حملوں کے کئی شاہدین نے کہا کہ انہوں نے قبریں کھودیں اور اپنی تمام تر توانائی اور وقت عسکریت پسندوں کو نکال باہر کرنے اور امن کے لیے راہ ہموار کرنے کی نذر کرنے کا عہد کیا۔

ایک مقامی بڑھئی غنی رحمان نے کہا کہ اس مسجد میں علاقہ میں امن سے متعلق مجالس منعقد کی جاتی تھیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پورا علاقہ اس ہولناک سانحہ میں لوگوں کی ہلاکت پر غمزدہ تھا، جس نے ان امن دوست لوگوں میں سے اکثر کو ختم کر دیا۔“

انہوں نے کہا، ”تکلیف اور اذیت تاحال علاقہ کو گھیرے ہوئے ہے، لیکن ایک اتفاقِ رائے اس امر پر ہے کہ عوام عسکریت پسندوں کو کھلی چھوٹ نہیں دیں گے۔“

رحمان نے کہا کہ وہ مسجد میں داخل ہونے ہی والے تھے کہ دھماکہ ہوا اور انہوں نے موقع پر ہر طرف انسانی گوشت پھیلا دیکھا۔ انہوں نے کہا، ”میں نے لوگوں کو ملبے تلے دبے دیکھا لیکن مقامی افراد تیزی سے جائے وقوعہ پر پہنچے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا۔“

انہوں نے کہا، ”عسکریت پسندوں نے گزشتہ پانچ برس میں [علاقہ میں] امن کمیٹیوں کے تقریباً 100 ارکان کو قتل کیا، لیکن نئے لوگ مسلسل امن کی کوششوں میں شریک ہو رہے ہیں۔“

عسکریت پسند فرار

عوامی نیشنل پارٹی کے پشاور سے تعلق رکھنے والے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ وہ عسکریت پسندوں سے بیزار ہیں اور حکومتِ پاکستان پر اپنی قیامِ امن کی کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے زور دیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”عسکری آپریشن کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے متعدد گروہ مفرور ہیں، لیکن ہمیں خدشہ ہے کہ اس کے دھیما ہو جانے پر وہ تنظیمِ نو کر سکتے ہیں۔ عسکریت پسندوں، ان کے حامیوں اور انہیں مالیات فراہم کرنے والوں کا پرزور طریقہ سے تعاقب کیا جانا چاہیئے۔“

انہوں نے کہا، حکومت کو وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور خیبر پختونخواہ (کے پی) میں لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کے خلاف بھی تحفظ فراہم کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا، ”یہ ہر کسی پر واضح ہے کہ عسکریت پسند ملک میں آزادانہ کام کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں؛ لہٰذا وہ ہر اس جگہ لوگوں کو قتل کرنے پر مرکوز ہیں جہاں وہ ایسا کر سکیں۔“

انہوں نے کہا، ”طالبان اپنے ناجائز ایجنڈا کو نافذالعمل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ ان کی ہراس پیدا کرنے کی کوشش اور عبادت گزاروں کا قتل ان کی مایوسی اور ناامیدی کو ظاہر کرتے ہیں۔“

انہوں نے کہا، ”ہماری جماعت عسکریت پسندی کی تمام اقسام کی مخالفت کرتی رہے گی اور دہشتگردی کے خلاف ہر اقدام کی حمایت کرے گی۔“

ہر محاذ پر عسکریت پسندی کے خلاف جنگ

کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) پشاور میں زندہ بچ جانے والے سات افراد میں سے ایک، وحید گل نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ جلد ہی عسکریت پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا ”عوام کے ساتھ ساتھ فوج کی قربانیوں کے ہوتے ہوئے امن ایک خواب نہیں۔ پاک فوج ایک طرف دہشتگردوں کے خلاف جنگ کر رہی ہے اور دوسری جانب زخمی افراد کو علاج کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ یہ نہایت قابلِ ستائش ہے۔“

انہوں نے کہا، ”سی ایم ایچ پشاور میں میرا باعزت طور پر مفت علاج کیا گیا۔ حملے کے دن ہمیں فضائی ذریعے سے ۔۔۔ پشاور لایا گیا، جس کی وجہ سے ہم بچ سکے۔“

انہوں نے کہا، ”فوج کی خدمات کا قرض چکانے کے لیے ہم اپنے سپاہیوں کے ہمراہ عسکریت پسندوں سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہمیں امن کی امّید ہے، تباہ کاروں کے خلاف ملک کا تحفّظ کرنے کے لیے صرف معصوم افراد کو ہی نہ قتل کریں

جواب