دہشتگردی

آپریشن ضربِ عضب میں 5،000 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے

از جاوید محمود

باجوڑ ایجنسی کے قبائلی عمائدین نے فاٹا اور دیگر علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی پر پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مبارک باد پیش کی۔ جنرل راحیل شریف نے 12 ستمبر 2016 کو 'عید الاضحیٰ' باجوڑ ایجنسی میں فوجیوں اور قبائلی عوام کے ساتھ ادا کی۔ [بشکریہ آئی ایس پی آر]

باجوڑ ایجنسی کے قبائلی عمائدین نے فاٹا اور دیگر علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی پر پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مبارک باد پیش کی۔ جنرل راحیل شریف نے 12 ستمبر 2016 کو 'عید الاضحیٰ' باجوڑ ایجنسی میں فوجیوں اور قبائلی عوام کے ساتھ ادا کی۔ [بشکریہ آئی ایس پی آر]

اسلام آباد -- ادارہ برائے تزویراتی مطالعات اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے مطابق، فوجی آپریشن ضربِ عضب نے 5،000 سے زائد عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا ہے اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے 4،000 مربع کلومیٹر سے زائد علاقے کو طالبان سے پاک کر دیا ہے۔

آئی ایس ایس آئی نے اپنی جون 2016 کی رپورٹ "انسدادِ دہشت گردی کے ذرائع" میں کہا کہ پاکستانی فوج نے آپریشن ضربِ عضب 15 جون 2014 کو شروع کیا تھا، اور گزشتہ دو برسوں کے عرصے میں آپریشن کا دائرۂ کار وسیع ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں ملک میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

آپریش کا نمایاں ترین پہلو عسکریت پسندوں کو بلا امتیاز نشانہ بنانا رہا ہے۔ مزید برآں، رپورٹ نے کہا، "اختیار کردہ حکمتِ عملی کی وجہ سے آپریشن ضربِ عضب میں فوج کے حصے میں کم اموات دیکھنے میں آئی ہیں۔"

رپورٹ میں کہا گیا کہ آپریشن ضربِ عضب کے تحت، فوج نے ہوائی بمباری کی مہم چلانے کے لیے پہلے پاکستانی فضائی کے لڑاکا جہازوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کو استعمال کیا، پھر پیادہ دستوں کے ساتھ حملہ آور ہوئی، جس سے عسکریت پسندوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔

آئی ایس ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق، 12 اپریل 2016 کو گوادر بندرگاہ کے اپنے دورے کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا، "آپریشن ضربِ عضب صرف ایک آپریشن نہیں ہے بلکہ یہ ایک "جامع طریقۂ کار ہے۔ اس کا حتمی ہدف دہشت گردی، انتہاء پسندی اور بدعنوانی کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے۔"

توقعات سے بڑھ کر

عسکریت پسندوں کے خلاف سابقہ آپریشنوں میں سنہ 2007 میں آپریشن راہِ راحق، اگست 2008 میں آپریشن شیر دل، اپریل 2009 میں آپریشن کالی آندھی، مئی 2009 میں آپریشن راہِ راست، جون 2009 میں آپریشن راہِ نجات اور نومبر 2009 میں آپریشن بریخنا شامل ہیں۔

آئی ایس ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق، لیکن آپریشن ضربِ عضب عسکریت پسندوں کے لیے زیادہ مہلک اور فوج کے لیے زیادہ کامیاب ثابت ہوا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے پشاور سے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی اور حصولیابیاں توقعات سے بڑھ کر ہیں اور آپریشن نے فاٹا میں نہ صرف بنیادی ڈھانچے، نیٹ ورک، پناہ گاہوں اور ممنوعہ علاقوں کا خاتمہ کیا ہے، بلکہ دہشت گرد حملوں کو بھی کم سے کم کر دیا ہے۔"

انہوں نے کہا، "آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے سے پہلے، بہت سے لوگوں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے جوابی کارروائیوں کے ایک سلسلے کا ڈر تھا، لیکن اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ کیے گئے آپریشن نے حیرت انگیز طور پر اچھے نتائج دیئے ہیں اور ملک کے اندر اور باہر ہر کسی کو حیران کر دیا ہے۔"

شاہ، جو ماضی میں فاٹا میں دفاعی سیکریٹری کے فرائض انجام دے چکے ہیں، نے کہا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور ان کے حلیف عسکری گروہوں نے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں مضبوط نیٹ ورکس، بنیادی ڈھانچہ اور پناہ گاہیں قائم کر لی تھیں۔

انہوں نے کہا، "وسط جون 2014 کے بعد سے، فوج نے عسکریت پسندوں کی تمام پناہ گاہوں اور ممنوعہ علاقوں کا صفایا کر دیا ہے اور اب ہمیں پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں کافی زیادہ بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔"

استحکام پذیر امن

پاکستانی ادارہ برائے تنازعات و دفاعی مطالعات (پی آئی سی ایس ایس) کے انتظامی ڈائریکٹر، عبداللہ خان نے کہا، "ضربِ عضب کی کامیابیاں قابلِ ذکر ہیں کیونکہ سنہ 2016 میں بڑے پیمانے پر دہشت گرد حملوں اور عام شہریوں اور دفاعی اہلکاروں کی ہلاکتیں کم ہو کر آٹھ سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہیں۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اب حقیقی چیلنج عسکریت پسندوں کے نظریات کے بیانیہ کی مخالفت کو فروغ دیتے ہوئے، فاٹا میں اصلاحات اور ان عسکریت پسندوں کو جو امن کے لیے ہتھیار ڈالنا چاہتے ہیں اپنے اندر جذب کرتے ہوئے آپریشن کی کامیابی کو استحکام پذیر بنانا ہے۔"

خان نے کہا کہ دینی جماعتوں، علاقائی رہنماؤں اور علماء کے مابین قومی ہم آہنگی پیدا کرنے اور معاشرے سے انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنے کے لیے تیار کردہ ایک مخالف بیانیہ کی تیاری کے لیے حکومت پر اپنا کردار ادا کرنا لازم ہے۔

انہوں نے کہا، "دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک قومی مسئلہ ہے اور حکومت اور سیاسی اور دینی جماعتوں کی شمولیت کے بغیر، معاشرے میں سے انتہاپسندی کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔"

کراچی آپریشن

ایک دفاعی تجزیہ کار اور کراچی میں بزنس پلس ٹی وی کے ایک سینیئر اینکر پرسن علی ناصر نے کہا، "5 ستمبر 2013 سے کراچی میں شروع کیے گئے محدود آپریشن نے بھی ملک میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو کم کرنے میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ کراچی میں سیکیورٹی فورسز نے ہزاروں عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا ہے، ان کے مضبوط ٹھکانوں، قوت اور نیٹ ورکس کو، ساتھ ہی ساتھ اغواء برائے تاوان اور ڈکیتیوں کے ذریعے عسکریت پسندی میں سرمایہ کاری کرنے کی ان کی صلاحیت کو ختم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دفاعی حکام کو چاہیئے کہ نیشنل ایکشن پلان کو بلا امتیاز نافذ کریں اور ایک استحکام پذیر اور دیرپا امن کے لیے پورے ملک میں دہشت گردی اور بدعنوانی کے گٹھ جوڑ کو توڑنے پر توجہ مرکوز کریں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Pakistan zindabad

جواب