سلامتی

ترچ میر پہاڑ نے غیرملکی کوہ پیماؤں کے لیے نئے افق کھول دیے

محمّد شکیل

2015 میں ترچ میر دکھایا گیا ہے۔ [بشکریہ سیّد عمران شاہ]

2015 میں ترچ میر دکھایا گیا ہے۔ [بشکریہ سیّد عمران شاہ]

پشاور — دو فرانسیسی کوہ پیماؤں کے ترچ میر سر کرنے نے پاکستان کو یہ امّید دلائی ہے دہشتگردی سے پائمال اس کی صنعتِ سیّاحت شاید لوٹ آئے۔ یہ پہاڑ سلسلۂ ہندوکش میں بلند ترین ہے اور چترال، خیبر پختونخوا (کے پی) سے بلند ہے۔

مشاہدین دہشتگردوں کی سیّاحوں کو ڈرا دینے اور پاکستان کو سیّاحت سے حاصل ہونے والی انتہائی ضروری آمدنی سے محروم کرنے کی صلاحیت کے خاتمے کو جون 2014 سے اب تک شمالی وزیرستان میں جاری فوج کی انسدادِ دہشتگردی کی جارحانہ کاروائی آپریشن ضربِ عضب کا مرہونِ منّت ٹھہراتے ہیں۔

2001 میں دہشتگردی کے آغاز سے کوہ پیمائی سمیت سیّاحت متاثر ہوئی ہے۔ بطورِ خاص 2013 میں نانگا پربت بیس کیمپ، گلگت بلتستان میں دہشتگردوں کی جانب سے 10 کوہ پیماؤں اور ایک گائیڈ کو قتل کیے جانے کے بعد غیر ملکی کوہ پیماؤں نے بطورِ خاص پاکستان سے کنارہ کر لیا۔

پندرہ برس میں پہلی بار ترچ میر سر کیا گیا

جولائی میں اس فرانسیسی جوڑے کے 7,708 میٹر بلند ترچ میر کو سر کرنے سے قبل ایک اطالوی نے 2001 میں اسے سر کیا تھا۔

کے پی ٹورازم کارپوریشن کی ترجمان زارا عالم نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ کے پی نے اس مہم کا منصوبہ بنایا، لیکن سیکیورٹی وجوہات کی بنا پرکوہ پیماؤں کے کامیاب ہو جانے تک اسے مخفی رکھا۔

انہوں نے کہا، ”کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے بغیر فرانسیسیوں کا پہاڑ سر کر لینا اور بعد ازاں بحفاظت واپس لوٹنا آپریشن ضربِ عضب کے بعد امنِ عامہ کی موافق صورتِ حال کے ہمارے دعوں کی توثیق کرتا ہے۔ [ان کے سر کرنے] سے مزید غیرملکی کوہ پیما اور مہماتی ٹیمیں مائل ہوں گی۔“

انہوں نے اضافے کو سیاحتی صنعت کے لیے ایک اچھا شگون قرار دیتے ہوئے کہا کہ جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب کی ابتدا کے بعد سے کے پی میں ہوائی اڈوں اور ہوٹلوں میں آنے والوں میں 60 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

زارا نے مزید کہا کہ کے پی حکام سیّاحت کی احیا کے لیے کام کر رہے ہیں اور صوبے کے دہشتگردی کے لیے زرخیز ہونے کے تصور کو تبدیل کرنے کی ضرورت کو پہچانتے ہیں۔

صحرائی ٹریولز کے مالک ظہور درّانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی کوہ پیماؤں نے ”کے پی کو امّید کی کرن دکھائی ہے“۔

سیّاحت کے دورِ عروج کی واپسی کی امّید

انہوں نے کہا کہ اگر سیکیورٹی مستحکم رہے تو کے پی 1970-1978 کے عروج کے سالوں کی واپسی دیکھ سکتا ہے، جب ہر برس شمالی علاقہ جات کے سفر پر آنے والے غیرملکی سیّاحوں سے بھرا ایک چارٹر طیارہ آیا کرتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ وحشت ناک برسوں میں کوہ پیما دیگر ممالک کو منتخب کرتے کیوں کہ وہ پاکستان کے دوروں کی بیمہ پالیسی حاصل نہ کر سکتے تھے۔

درّانی نے کہا کہ فرانسیسی کوہ پیماؤں کی بیمہ حاصل کر لینے کی واضح اہلیت ”عسکریت پسندی کے قلع قمع کے بعد پاکستان کی سیکیورٹی صورتِ حال پر دینا کے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔“

کے پی الپائن گائیڈ سیّد عمران شاہ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2001 سے اب تک پاکستان میں سیّاحت میں اچانک کمی براہِ راست دہشتگردی کا شاخسانہ ہے۔ ”[انہوں نے] یہاں کی مہمّات کی منصوبہ بندی ختم کر دی۔“

انہوں نے کہا، ”اب دو مزید غیرملکی کوہ پیما ترچ میر پہاڑ کے قریب ہیں۔ مجھے امّید ہے کہ مزید ٹیمیں بھی آئیں گی۔“

عمران نے کہا کہ حکام کلیئرنس سرٹیفیکیٹ، ویزا اور دورہ کے اجازت نامے جاری کرنے کے عمل کو مختصر بنا کر ہمارے سیاحوں کے لیے تسہیل کر سکتے ہیں۔

چترال سے تعلق رکھنے والے صحافی اور اے آر وائی نیوز کے نمائندہ گل حمّاد فاروقی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ طور پر غیر ملکی ان علاقوں میں این او سی کے بغیر سفر کر سکتے ہیں جن میں قبل ازیں انہیں پولیس کا تحفظ درکار تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2013 میں نانگا پربت قتلِ عام نے کوہ پیماؤں کے مابین پاکستانیوں کے تصور کو شدید خوفناک بنا دیا۔

انہوں نے کہا، ”سیکیورٹی فورسز کے آپریشن ضربِ عضب میں سیکیورٹی فورسز کی کامیابی کے بعد صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔“

انہوں نے کہا، ”اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ دینے والے افراد اب ۔۔۔ اپنے مقامی وطن کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ سیاحت سے اپنا معاش کمانے والوں نے اب ایک نئے مستقبل کی جانب دیکھنا شروع کر دیا ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500