دہشتگردی

ایران افغان طالبان کی معاونت اور انہیں مالی امداد فراہم کرتا ہے: حکام

اعزازاللہ

ایران کی پشت پناہی کے حامل افغان طالبان جولائی میں صوبہ نمروز میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ [اعزاز اللہ]

ایران کی پشت پناہی کے حامل افغان طالبان جولائی میں صوبہ نمروز میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ [اعزاز اللہ]

کابل — افغان سیکیورٹی عہدیداران اور تجزیہ کاروں نے تصدیق کی ہے کہ ایران کم از کم گزشتہ 10 برس سے افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی عسکری اور مالی معاونت کر رہا ہے۔

ایک افغان سیکیورٹی تجزیہ کار اور زوان خاوازاخت (تحریکِ نوجوانان) کے سربراہ رحمت اللہ سائیہون نے کہا کہ گزشتہ 10-15 برس کے دوران افغان حکومت اور اتحادی افواج نے کئی مواقع پر طالبان جنگجوؤں سے ایرانی ہتھیار ضبط کیے ہیں۔

انہوں نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ممکن ہے کہ [ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور (آئی آر جی سی)] کے اندر موجود عناصر نے طالبان کو دور تک مار کرنے والے راکٹ منتقل کیے ہوں اور طالبان کے لیے تربیت فراہم کی ہو۔“

انہوں نے کہا، ”فروری 2011 میں برطانوی افواج نے مبینہ طور پر 48 112 ملی میٹر راکٹوں پر مشتمل ایک رسد کو روکا جس سے متعلق انہوں نے ایرانی ساختہ ہونے کا دعویٰ کیا۔“

طالبان رہنما کا ایران میں قیام

ایران کے طالبان کے ساتھ ملوث ہونے کا ایک اور ثبوت پیش کرتے ہوئے، افغان طالبان کا سابق رہنما ملّا اختر محمد منصور مبینہ طور پر ایران سے پاکستان جاتے ہوئے راستے میں تھا، جب وہ مئی میں مارا گیا۔

سئیہون نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”منصور کی موت از خود افغان طالبان اور ایران کے مابین رابطے کو ثابت کرتی ہے۔“ چند میڈیا رپورٹس کے مطابق، منصور کو ایران میں تلاش کیا گیا جہاں وہ اپنے اہلِ خانہ سے ملنے گیا اور بعد ازاں سرحد پار کر کے واپس پاکستان آنے پر اسے ہدف بنایا گیا۔

افغان قومی نظامتِ سلامتی (این ڈی ایس) کے مطابق، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تسلیم کیا کہ منصور دراصل ایران میں تھے اور وہاں سے نکلتے ہوئے مارے گئے۔

معاملہ کی نزاکت کے پیشِ نظر اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پرسلام ٹائمز سے بات کرنے والے این ڈی ایس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ منصور نے ایران کے متعدد غیرسرکاری دورے کیے۔

انہوں نے کہا، ”ہمارے پاس کچھ ایسی دستاویزات ہیں جو ایران کے طالبان کے ساتھ روابط کو ثابت کرتی ہیں۔ وہ انہیں روپیہ اور ہتھیار بھیجتے ہیں اور انہیں ایران میں پناہ دیتے ہیں۔“

افغان سیاسی تجزیہ کار سید جواد فارحی نے کہا کہ حکومتِ ایران طالبان کو ایک مفید دشمن کے طور پر دیکھتی ہے جو ان کے بڑے دشمن کے مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

فارحی نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ایران طالبان کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ انہیں افغانستان میں اتحادی افواج کے خلاف استعمال کر سکے اور یہی وجہ ہے کہ ملّا منصور ایران گیا۔ درجنوں طالبان ایران میں تربیت اور پناہ حاصل کر رہے ہیں۔“

افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان جنرل دولت وزیری نے بھی ایران کے طالبان کے ساتھ تعلق کی تصدیق کی۔

وزیری نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”حکومتِ افغانستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ خراب تعلقات کی خواہاں نہیں، تاہم جس قدر ہم نے مشاہدہ کیا ہے، ایران طالبان اور باغیوں کی حمایت کرتے ہوئے افغانستان میں جنگ پر اثرانداز رہا ہے۔“

انہوں نے مزید کہا، ”یہ امر باعثِ حیرت نہیں ہونا چاہیے کہ حکومتِ ایران طالبان کی حمایت کر رہی ہے۔“

کابل کو کمزور کرنے کےلئے عذر تراشنا

کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے ایران طالبان کی حمایت کے لئے "دولت اسلامی عراق و شام" (آئی ایس آئی ایل) کی افغانستان اور پاکستان میں موجودگی کو عذر کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔

کابل میں مقیم افغانستان-ایران سیکورٹی کے تجزیہ نگار فضل حق مراد نے بتایا ہے کہ ہرات اور نمروز صبوں میں جہاں افغانستان کی سرحد ایران سے ملتی ہے طالبان پر ایران کا اثرو رسوخ مضبوط ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "دیگر دشمنوں کو ایران میں داخلہ سے روکنے کے لئے اپنی سرحد کے ساتھ ایک بفرزون قائم کرنے کے لئے ایران طالبان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔"

"ہر شخص جانتا ہے کہ طالبان افغانستان اور افغان نیشنل آرمی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں،" انہوں نے بتایا۔ "اگر ایران ان کی مدد کر رہا ہے تو یہ واضح ہے کہ یہ افغان آرمی کے خلاف ہے۔"

مراد نے بتایا، "طالبان اور ایران اس شراکت داری کو افغانستان کو مستحکم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کو کمزور کرنے کے لئے بنیادی عامل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید بتایا، اس کا قطعی مقصد اتحادی افواج کے کابل سے نکل جانے کے بعد باقی رہ گئی کسی بھی حکومت کو ہٹانا ہے۔

کابل یونیورسٹی کے پروفیسر محبوب شاہ محبوب نے خدشہ کا اظہار کیا کہ ایران کی طالبان کے لئے مدد افغانستان میں عدم استحکام کو بڑھاوا دے رہی ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "ایران طالبان کو صرف رقم نہیں فراہم کر رہا ہے بلکہ 2013 سے اس کی سرزمین پر تربیتی کیمپ بھی ہیں۔"

"ایران افغانستان میں امن نہیں چاہتا"۔ صوبہ نمروز کی رکنِ پارلیمان فرشتہ انوری نے سلام ٹائمز کو بتایا۔ "تہران افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن کی کوششوں کو کمزور کر رہا ہے۔"

انہوں نے بتایا، طالبان کے لئے ایرانی پشت پناہی افغانستان میں ایرانی سرگرمیوں کی عوامی حمایت کو کم کررہی ہے۔

انواری نے بتایا، "ہم اور ہماری عوام اچھے پڑوسیوں کے خواہشمند ہیں اور اگر وہ ہمارے دشمنوں کی حمایت کر رہے ہیں تو عوام انہیں نہیں کرنے دے گی اور کبی بھی ان حمایت نہیں کرے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد آمن ممکن ہے

جواب

افغانستان میں اس وقت جنگ بندی کا امکان ہے جب افغانی طالبان اور حکومت آپس میں ایک دوسرے کے مشاورت ایک حکومت بنائے

جواب