صحت

پاکستانی اسلامی علماء پولیو کے خاتمے کے لیے 'آخری ہلے' کے حامی

از اشفاق یوسفزئی

پولیو کے خاتمے کے لیے اسلامی مشاورتی گروپ 27 جولائی کو جدہ، سعودی عرب میں مشاورت کرتے ہوئے۔ [بشکریہ ڈبلیو ایچ او]

پولیو کے خاتمے کے لیے اسلامی مشاورتی گروپ 27 جولائی کو جدہ، سعودی عرب میں مشاورت کرتے ہوئے۔ [بشکریہ ڈبلیو ایچ او]

پشاور -- اسلامی علماء پاکستان اور افغانستان میں والدین کو ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ طالبان کی پرواہ مت کریں اور اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین پلائیں۔

دونوں ممالک کو یہ ناخوشگوار امتیاز حاصل ہے کہ یہ دو آخری ممالک ہیں جہاں پولیو ابھی تک ایک علاقائی مرض ہے۔

جدہ، سعودی عرب کے مقامی پولیو کے خاتمے کے لیے اسلامی مشاورتی گروپ (آئی اے جی) نے پچھلے ماہ دو مسلمان ممالک میں سے اس وائرس کو ختم کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کیا۔

جدہ میں اپنے تیسرے سالانہ اجلاس کے اعلامیئے میں آئی اے جی نے 27 جولائی کو ایک بیان میں کہا، "گزشتہ چند برسوں میں، چند مسلمان ممالک میں پولیو کے خاتمے میں غلط فہمیوں اور ویکسین دینے کے لیے بچوں تک محفوظ رسائی کی کمی کے ذریعے رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔"

بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی (آئی آئی ایف اے)، جامعہ الازہر قاہرہ، اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ایس ڈی بی)، اور تنظیم برائے اسلامی تعاون، ساتھ ہی ساتھ دیگر دینی علماء، تکنیکی ماہرین اور اساتذہ نے اجلاس میں شرکت کی۔

اسلامی محققین طالبان کے پراپیگنڈہ کا مقابلہ کریں

آئی اے جی نے پولیو کی ویکسین کی مخالفت کرنے پر طالبان کی مذمت کی اور دینی رہنماؤں سے عسکریت پسندوں کے پراپیگنڈہ کا مقابلہ کرنے کو کہا۔

طالبان نے غلط طور پر ویکسین کو ایک مغربی سازش قرار دیا ہے۔

آئی اے جی نے پولیو کے قطروں کے محفوظ اور مؤثر ہونے پر اعتماد کی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ "یہ اسلامی احکامات کے عین مطابق ہے۔"

نیز یہ "والدین کی اپنے بچوں کو صحت مند رکھنے کے لیے حفاظتی قطرے پلوانے اور ٹیکہ جات لگوانے کی دینی ذمہ داری کی بھی توثیق کرتی ہے۔"

آئی اے جی نے اس کلیدی کردار کی تصدیق کی جو اسلامی علماء صحت کے امور میں عوامی فہم کو بہتر بنانے میں اور پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خاتمے کے آخری ہلے میں ادا کر سکتے ہیں۔

پولیو کے خاتمے میں پیش رفت

عالمی ادارۂ صحت کے علاقائی دفتر برائے مشرقی بحیرۂ روم (قاہرہ میں واقع) کے علاقائی ڈائریکٹر، ڈاکٹر اعلیٰ الوان نے پولیو کے خلاف لڑائی میں پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے کردار کو سراہا۔

آئی اے جی میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا، "آپ کی محنت کا اثر پاکستان میں قومی اور صوبائی سطحات پر اور نیچے یونین کونسل اور علاقے کی سطحات پر قومی اسلامی مشاورتی گروپ (این آئی اے جی) کے مثبت کردار کے ذریعے نمایاں تھا بذریعہ ہراول دستے میں کام کرنے والے صحت اہلکاروں کو معاونت اور تحفظ دینے میں مقامی دینی علماء کی مشغولیت۔"

اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر، احمد محمد علی نے کہا کہ اسلامی ترقیاتی بینک نے 100 ملین ڈالر [10.5 بلین روپے] "سنہ 2018 کے اختتام تک پولیو کے خاتمے کے لیے پاکستانی حکومت اور اس کے شراکت داروں کی کوششوں میں معاونت کے لیے مہیا کیے۔"

آئی اے جی کے بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی دیگر بیماری کے معاملے کے برعکس، پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن ہے کیونکہ انسانوں میں ایک محفوظ اور مؤثر ویکسین ہوتی ہے۔

30 سال سے بھی کم عرصہ پہلے، 125 ممالک میں پولیو کے کیسز کی تعداد کا اندازہ 350،000 لگایا گیا تھا۔ آج، پولیو تاریخ میں اپنے کم ترین مقام پر ہے، جس میں اس سال ابھی تک صرف 19 کیس رپورٹ ہوئے ہیں -- 13 پاکستان میں اور 6 افغانستان میں۔

بہت زیادہ پیش رفت ہو چکی ہے، لیکن صحت اہلکاروں کو ابھی بھی پاکستان کے خیبرپختونخوا (کے پی) اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں ایک خوفناک دشواری کا سامنا ہے، جو کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کے آر پار وائرس کی منتقلی کے لیے زد پذیر ہیں، جہان عسکریت پسند پرتشدد طریقے سے حفاظتی قطروں اور ٹیکوں کی مخالفت کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

فاٹا کے لیے پولیس ویکسینیشن کے سربراہ، ڈاکٹر اختیار علی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "سنہ 2016 میں فاٹا میں صرف ایک کیس ریکارڈ کیا گیا تھا، [ایک بچہ] جو کہ افغانستان میں متاثر ہوا تھا۔ بچہ ایک ایسے علاقے میں رہتا تھا جہاں طالبان نے ویکسینیشن کو مسترد کر دیا تھا۔"

بچوں کو بیماری، معذوری سے بچانا

ضلع نوشہرہ، کے پی میں ایک دینی مدرسے، دارالعلوم حقانیہ کے سربراہ، مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وہ اپنے جمعہ کے خطبات میں باقاعدگی کے ساتھ ویکسینیشن کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "لوگوں نے ہماری کاوشوں کو سراہا ہے، اور ویکسینیشن کو مسترد کرنا اتنا عام نہیں رہا ہے جتنا یہ ایک سال پہلے تھا۔"

"ہر کوئی جو پولیو کے قطروں کا مخالف ہے ہمارے بچوں کو نقصان پہنچاتا ہے،" کا اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان پراپیگنڈہ دعویٰ کرتا ہے کہ پولیو کے قطرے نامردی پیدا کرتے ہیں جو کہ غلط ہے۔

مدرسے کے سربراہ سمیع الحق، جو کہ دینی علماء کی جانب سے شروع کی گئی بین الاقوامی مہم کا حصہ ہیں، نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے طبی سائنسدانوں نے ویکسینیشن کو محفوظ اور نقصان دینے والے کسی بھی ایجنٹ سے پاک قرار دیا ہے۔

گزشتہ چھ ماہ میں، انہوں نے یہ پیغام دینے کے لیے کہ بچوں کو حفاظتی قطرے پینے کا حق حاصل ہے، دارالعلوم حقانیہ میں پولیو کے قطرے پلانے کی دو مہمیں چلائی ہیں۔

ضلع پشاور کے مرکزی خطیب، قاری روح اللہ مدنی نے کہا کہ دینی علماء نے طالبان کے اس دعوے کا مقابلہ کرنے میں ایک مرکزی کردار ادا کیا ہے کہ ویکسینیشن اسلام میں ممنوع ہے۔

"انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "لوگ علماء کی پیروی کرتے ہیں اور بہت سے امور میں ان کی رائے کو قبول کرتے ہیں۔ علماء فاٹا میں 99 فیصد استردادوں کو حل کرنے کے قابل رہے ہیں، جہاں قطرے نہ پلانا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔"

انہوں نے کہا کہ بعض اوقات حفاظتی قطروں کے بارے میں طالبان کے بیانات پر یقین کرنے کے علاوہ، لوگ طالبان کے مظالم کے خوف میں رہتے تھے، اس لیے وہ اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے گریز کرتے تھے۔

انسدادِ دہشت گردی حملوں جنہوں نے جون 2014 کے بعد سے پاکستانی عسکریت پسندوں کا ان کے زیادہ تر سابقہ مضبوط قلعوں سے تعاقب کیا ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "اب امن و امان کی صورتحال تقریباً معمول پر آ گئی ہے، جس کی وجہ سے قطرے پلانے کی سرگرمیاں باقاعدگی سے ہو رہی ہیں۔"

مدنی نے کہا، "ہم معاشرے کو بیماری سے پاک بنانے کے لیے تمام وسائل استعمال کرتے ہیں۔ قطرے مفت دستیاب ہیں، اور ہر بچے کو پانچ سال کی عمر تک قطرے پینے کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "قطرے نہ پلانا معذوریوں پر منتج ہو سکتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500