پناہ گزین

پاکستانی قبائل کی واپسی آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کی غماز ہے

از عدیل سعید

گزشتہ 20 دسمبر کو ضلع ٹانک، کے پی میں شمالی وزیرستان ایجنسی کے قبائلی گھر جانے کی تیاری کرتے ہوئے۔ فوج نے جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب شروع کرتے ہوئے شمالی وزیرستان کو عسکریت پسندوں سے خالی کروا لیا تھا۔ [عدیل سعید]

گزشتہ 20 دسمبر کو ضلع ٹانک، کے پی میں شمالی وزیرستان ایجنسی کے قبائلی گھر جانے کی تیاری کرتے ہوئے۔ فوج نے جون 2014 میں آپریشن ضربِ عضب شروع کرتے ہوئے شمالی وزیرستان کو عسکریت پسندوں سے خالی کروا لیا تھا۔ [عدیل سعید]

پشاور -- برسوں کی جنگ کے بعد وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں پاکستانی قبائل اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قبائل کی شمالی وزیرستان ایجنسی (این ڈبلیو اے)، جو کبھی فاٹا میں عسکریت پسندوں کا بے لوچ گڑھ تھا، سے واپسی امن و امان کی صورتحال میں بہت زیادہ بہتری کی نمائندگی کرتی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ برسوں تک افغانستان یا پاکستان کے دیگر حصوں میں حسرت زدہ رہنے کے بعد، این ڈبلیو اے کے ہزاروں خاندان آخرکار اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔

بے گھر ہونے والے خاندانوں نے جولائی میں افغانستان سے واپس اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کیا تھا۔

گھروں کی طرف ہجرت پاکستانی فوج کی جانب سے جون 2014 میں شمالی وزیرستان ایجنسی میں آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے -- جو کہ آج تک جاری ہے -- کے بعد ممکن ہوئی۔

دونوں اطراف میں بھاری نقصانات ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے مطابق، گزشتہ دسمبر تک لڑائی میں تقریباً 3،400 دہشت گرد ہلاک اور 488 دفاعی اہلکار شہید ہوئے ہیں۔

قبائل کی گھروں کو واپسی

بے گھر ہونے والے خاندانوں کی تعداد بہت وسیع تھی۔

این ڈبلیو اے کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "تقریباً 82،000 خاندان، جو تقریباً 1 ملین افراد پر مشتمل تھے، نے این ڈبلیو اے سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہجرت کی اور تقریباً 10،000 خاندان، جو سرحدی علاقے میں مقیم تھے، آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد افغانستان چلے گئے تھے۔"

انہوں نے کہا، "تقریباً 2،400 خاندان جو این ڈبلیو اے سے فرار ہوئے تھے اور افغانستان میں پناہ گزین ہوئے تھے، جولائی کے اختتام تک پاکستان واپس آ گئے ہیں، جبکہ 7،500 خاندانوں نے واپسی کے فارم جمع کروائے ہیں اور مراجعت کے لیے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔"

آفریدی نے کہا کہ اندرونِ ملک بے گھر ہونے والے افراد (آئی ڈی پیز) -- وہ جو پاکستان کے اندر ہی کہیں اور جا بسے تھے -- ان کی این ڈبلیو اے کو واپسی مرحلہ وار طریقے سے مارچ 2015 میں شروع ہوئی تھی، اور ابھی تک 41،000 خاندان اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں۔ تقریباً 41،000 دیگر خاندان واپسی کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں۔

آفریدی نے کہا کہ حکام نے نومبر کے اختتام تک تمام آئی ڈی پیز کو ان کے گھروں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دریں اثناء، این ڈبلیو اے کی سیاسی انتظامیہ نے جولائی میں ان قبائلی خاندانوں کی وطن واپسی شروع کرنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے افغانستان میں پناہ لی تھی۔

قبائلی عمائدین کا ایک 10 رکنی وفد اپنے رشتہ داروں کو سیاسی انتظامیہ کے فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے افغانستان گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وفد کے ارکان واپس لوٹنے والوں اور ان کے سازوسامان کی معلومات جمع کرنے کے لیے اپنے ساتھ ابتدائی اندراج اور تصدیق کے فارم لے کر گئے تھے۔

آفریدی نے کہا، "آئی ڈی پیز [یا افغانستان میں پناہ گزینوں] کے بھیس میں کسی بھی اجنبی یا دہشت گردوں کے داخلے کو روکنے کے لیے واپسی کے عمل میں اضافی چوکسی کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہر خاندان کو ہدایات دی گئی ہیں کہ اپنے اہلِ خانہ کے ناموں کے بارے میں تفصیلات اور اپنے قبیلے اور گاؤں کے نام کے ساتھ ایک کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ [سی این آئی سی] مہیا کریں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ قومی ڈیٹابیس اور اندراج کے محکمہ (نادرا) کی جانب سے ہر خاندان کے ارکان کے سی این آئی سی کی تصدیق کے بعد شناخت کے عمل کا اختتام ہو جائے گا۔

داتہ خیل علاقے کے ایک باشندے، ملک غلام، جنہوں نے سنہ 2014 میں افغانستان کو ہجرت کی تھی، نے کہا، "جب صورتحال بہتر ہوئی اور این ڈبلیو اے میں امن واپس آ گیا، قبائل نے اپنے آبائی علاقوں میں واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔"

غلام خود بھی چند ماہ قبل دتہ خیل واپس منتقل ہو گئے تھے یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ علاقہ اب محفوظ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے اہلِ خانہ تاحال صوبہ خوست، افغانستان میں مقیم ہیں، اور علاقے میں امن اور تحفظ کی بحالی کے بارے میں سننے کے بعد واپس آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

انہوں نے این ڈبلیو اے کے تمام قبائلی ارکان کو گھر واپس آنے کی ترغیب دی، اب جبکہ فوج نے ایجنسی کو صاف کر دیا ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "وہ دن گزر گئے جب بندوقیں لہراتے عسکریت پسند آزادی کے ساتھ ہمارے علاقے میں گھومتے تھے اور پُرامن ماحول کو خطرے میں ڈالتے تھے۔ اب قبائلیوں کی تشویش کا باعث پانی کی رسد، بجلی، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔"

امن اور تحفظ

این ڈبلیو اے کے ایک مقامی صحافی، عمردراز وزیر نے کہا کہ سرحدی علاقوں بشمول دتہ خیل، شوال اور سرحدی علاقہ باکا خیل میں رہنے والے باکاخیل اور مہمندخیل قبیلے کے ہزاروں ارکان نے افغانستان ہجرت کرنے کا انتخاب کیا۔ ان خاندانوں میں سے بہت سے خاندان پکتیا، پکتیکا، اور خوست سمیت افغان صوبوں میں آباد ہو گئے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ان خاندانوں میں سے زیادہ تر خاندان جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ مقیم تھے انہوں نے عجلت اور غلط فہمی کی حالت میں سلامتی کے لیے شمالی وزیرستان کو خیرباد کہا اور بنوں، خیبرپختونخوا، جو کہ زیادہ دور تھا پہنچنے کی بجائے سرحد پار کر جانے کا انتخاب کیا۔"

انہوں نے کہا، "تاہم، اب لوگ واپس آ رہے ہیں جب دہشت گردوں اور ریاست مخالف عناصر کے خلاف کامیاب فوجی آپریشن کے بعد معمول کی زندگی ۔۔۔ این ڈبلیو اے میں واپس آ رہی ہے۔"

عمردراز نے کہا کہ حکومت واپس لوٹنے والے قبائلی ارکان کو کافی زیادہ امداد دے رہی ہے، جس میں فی خاندان 35،000 روپے (350 امریکی ڈالر) اور چھ ماہ کی خوراک کا راشن، ساتھ ہی ساتھ آمدورفت میں مدد شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ این ڈبلیو اے کی سیاسی انتظامیہ نے افغانستان میں آباد ہونے والے بے گھر خاندانوں کے اندراج کے لیے آخری تاریخ 1 اگست مقرر کی تھی۔

تاہم، آخری تاریخ گزر جانے کے بعد، این ڈبلیو اے کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی، جو پارلیمان میں این ڈبلیو اے کی نمائندگی کرتے ہیں، اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے قبائلی عمائدین کا ایک جرگہ منعقد کروانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ قبائلی ارکان جو پاکستان واپس آنے کے لیے این ڈبلیو اے کی سیاسی انتظامیہ کے پاس اندراج کروانے میں ناکام رہتے ہیں اپنی شہریت سے محروم ہو سکتے ہیں۔

فاٹا کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین، زر علی خان آفریدی، نے فاٹا میں امن کی بحالی کو سراہا لیکن علاقے میں معاشی سرگرمی کے احیاء کے لیے ایک بڑے منصوبے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جاری جنگ میں قبائل نے بے حساب نقصانات اٹھائے ہیں اور وہ حکومت اور عالمی برادری کی جانب سے خصوصی سلوک کے مستحق ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ یہ ایک اچھی خبر ہے کہ وہ قبائلی ارکان جنہوں نے افغانستان کی طرف ہجرت کی تھی گھر واپس آ رہے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

الا.خیر.کر

جواب

مجھے پاکستان سے محبت ہے

جواب

میں بھی

جواب