سلامتی

پاکستان میں پرامن طور پر یومِ آزادی کا جشن

امداد حسین

14 اگست کو پاکستانی اسلام آباد میں یومِ آزادی کے پر امن جشن کے جزُ کے طور پر پرچم خرید رہے ہیں۔ [امداد حسین]

14 اگست کو پاکستانی اسلام آباد میں یومِ آزادی کے پر امن جشن کے جزُ کے طور پر پرچم خرید رہے ہیں۔ [امداد حسین]

اسلام آباد — 14 اگست کو پاکستان میں جذبۂ حب الوطنی، گرمجوشی اور ملک میں قیامِ امن کے عہد کے ساتھ 70 واں یومِ آزادی منایا گیا۔

حکام نے دہشتگردی کو سر نہ اٹھانے دیا۔

ایک ہفتہ قبل کوئٹہ میں ایک خودکش حملہ آور نے 72 افراد کو قتل کیا۔ اس سفاکی نے پاکستانیوں کو صدمہ پہنچایا، مگر مجرم یومِ آزادی پر ملک کا عزم پست کرنے میں ناکام رہے۔

گھڑی کے بارہ بجاتے ہی زندگی کے تمام شعبوں سے مرد، خواتین اور بچے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور اسلام آباد میں سڑکوں کے کنارے، پارکوں اور دیگر عوامی مقامات پر جشن منانے لگے۔ کچھ موسیقی بجانے اور رقص کرنے لگے جبکہ دیگر ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگانے لگے۔

صدرمقام میں تمام سرکاری اور بڑی نجی عمارتوں کو آرائشی روشنیوں سے آراستہ کیا گیا۔

گاڑیاں چلانے والے اپنے موٹرسائیکلوں اور کاروں پر بڑے پرچم لگا کر شہر کے مختلف حصّوں میں سیر کرتے رہے۔

محبِ وطن پاکستانیوں کا جشن

اسلام آباد کی ایک خاتون، ثمینہ نے اپنے 10 سالہ بیٹے کے لیے سبز و سفید قمیص خریدتے ہوئے کہا، ”آج ہم اپنا یومِ آزادی مناتے ہوئے خوش ہیں۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمیں مکمل امن کی امّید ہے ۔۔۔ تاکہ ہماری آزادی اور خوشیاں چھیننے کے مقصد سے کوئٹہ میں جو ہوا، ایسے سانحات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔“

اسلام آباد میں ایک 30 سالہ ٹیکسی ڈرائیور، شہباز نے کہا کہ اس نے فخر اور حب الوطنی کے مظاہرہ کے طور پر اپنی گاڑی کے پیچھے ایک اونچا پرچم نصب کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالات سے قطع نظر، ”پاکستانی کبھی دہشتگردوں کے آگے نہیں جھکیں گے۔“

یومِ آزادی سے ایک روز قبل بازار سبز و سفید یادگاروں – پرچموں، قمیضوں، لباس، غباروں اور دیگر سامان سے بھر گئے۔

اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں آٹھ سالہ الیاس نے اپنے والدین سے ایسی زیادہ سے زیادہ چیزیں خریدنے کا تقاضا کر کے اپنی ضد کا اظہار کیا۔

اپنے بچے کی خواہشیں پوری کرتے اس کے والدین نے کہا، ”یہ قدرتی طور پر پاکستانی پرچم سے مشابہ ہر چیز کو پسند کرتا ہے۔“

اس کے والد جاوید نے کہا، ”میرے خیال میں ایسا اس لیے ہے کیوں کہ آج اسے ہر جگہ سفید اور سبز ہی نظر آ رہا ہے۔“

ملّی نغمے گاتے اور بجاتے نوجوانوں کے گروہ پرجوش تھے۔

اسلام آباد میں خیبر پختونخواہ (کے پی) سے آئے ایک طالبِ علم، جواد، نے کہا، ”یہ امن کے دشمنوں کے لیے ایک پیغام ہے: ہم امن چاہتے ہیں اور یہ قائم ہو گا؛ ہم نہ ٹوٹنے والے اور پر عزم ہیں۔“

ایک سرکاری ملازم، علی، جنہوں نے ایک ہی نام سے اپنی شناخت بتائی، نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو فاطمہ جناح پارک لائے کیوں کہ ان میں تاریخِ پاکستان سے متعلق تجسس پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ”ہم نے اپنی پچھلی نسل کی کئی قربانیوں سے یہ عظیم ملک حاصل کیا اور اب ہم آنے والی نسلوں کو ایک پرامن ملک دینے کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔“

دن کا آغاز اسلام آباد میں 31 توپوں کی سلامی اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی سے ہوا۔

پرچم لہرانے کی مرکزی تقریب اسلام آباد میں کنونشن سنٹر میں منعقد ہوئی۔

صدر ممنون حسین، وزیرِ اعظم میاں محمّد نواز شریف، عسکری خدمت کے تمام شعبوں کے سربراہان، دیگر عہدیداران اور سفارت کاروں نے شرکت کی۔

حسین نے دہشتگردی کے خاتمہ کا عہد کیا اور کہا کہ پوری قوم کوئٹہ میں بم حملوں میں ہونے والے نقصانات پر افسردہ ہے۔

درایں اثناء، ملک بھر میں پاکستانیوں نے یومِ آزادی سے متعلق متعدد تقاریب میں شرکت کی۔ ٹی وی سٹیشنز نے خصوصی پروگرام نشر کیے اور نمازیوں نے مساجد میں امن کے لیے دعا کی۔

عوام کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی حصار

ملک بھر میں سخت سیکیورٹی نے جشن کے دوران تحفظ فراہم کیا۔

پولیس اور نیم فوجی دستوں نے ہوائی جہاز کی مدد کے ساتھ صدرمقام کو آنے اور جانے والی سڑکوں کی حفاظت کی۔

کشمیر ہائی وے پر کام کرنے والے ایک پولیس اہلکار نے کہا، ”شہریوں کے تقریبات سے لطف اندوز ہونے کے لیے یومِ آزادی پر سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فرائض انجام دینے پر مجھے فخر ہے۔“

وزارتِ داخلہ کے ترجمان سرفراز حسین نے کہا، ”کسی بھی نا خوشگوار واقعہ کی انسداد کے لیے ۔۔۔ وزیرِ داخلہ نے نفاذِ قانون کی ایجنسیوں سے معاونت کی۔ صوبوں کو بھی اسی طرح سے کام کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔“

حکام نے اسلام آباد سمیت 40 شہروں کے اکثر حصّوں میں دن کے متعدد اوقات میں موبائل فون بند کر دیے۔ بالآخر تمام سروس بحال کر دی گئی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500