تعلیم

کے پی نے عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے لیے تعلیمی فنڈ میں اضافہ کر دیا

ظاہر شاہ

نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں، بچے، والدین اور اساتذہ خیبر ایجنسی میں ہاشم آباد، تحصیل جمرود کے گورنمنٹ پرائمری اسکول کے سامنے فوٹو کھنچوا رہے ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں، بچے، والدین اور اساتذہ خیبر ایجنسی میں ہاشم آباد، تحصیل جمرود کے گورنمنٹ پرائمری اسکول کے سامنے فوٹو کھنچوا رہے ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) نے تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لیے اپنے کل بجٹ کا تقریباً 28 فیصد مختص کر کے ایک بار پھر پاکستان کے صوبوں میں پہل کی ہے، جس کو کئی عشروں سے جنگ اور عسکریت پسندی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اس فنڈنگ کا مقصد نصاب اور انفراسٹرکچر جیسی چیزوں کو جدید خطوط پر استوار کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اسکول کے بچوں کو انتہاپسندوں کے اثر سے محفوظ رکھنا ہے۔

کے پی کے بجٹ وائٹ پیپر کے مطابق صوبے میں تعلیم کے لئے مختص کی گئی رقم 2016-2015 کے 119.7 ارب روپے (1.1 ارب امریکی ڈالر) سے بڑھا کر 2017-2016 میں 143.4 ارب روپے (13.7 ارب امریکی ڈالر) کر دی گئی ہے۔

اسلام آباد کے تعلیمی اصلاحات کے ایک این جی او، الف اعلان کے مطابق کے پی کا تعلیم پر اپنے بجٹ کا 28 فیصد مختص کرنے کا منصوبہ، صوبہ سندھ کے متوقع 20 فیصد اور پنجاب کے 18 فیصد کے مقابلے میں بہتر ہے۔

بچوں کو اسکول میں رکھنا

کے پی حکام بچوں کو دولت اور جنت کے خواب دکھانے والے انتہا پسندوں سے دور اسکول میں رکھنا چاہتے ہیں۔

الف اعلان کے مطابق، کے پی کے اُن بچوں کی تعداد جو اسکول میں رہ جاتے ہیں غیر متناسب طور پر لڑکوں کی ہے: سادہ الفاظ میں اسکول نہ جانے والے 21 فیصد لڑکوں کے مقابلے میں اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد 52 فیصد ہے۔

پرائمری اسکول سے پڑھائی چھوڑنے والوں کی شرح بھی اس ہی طرح ہے: لڑکیاں 46 فیصد، لڑکے 25 فیصد۔

کے پی کے ماہرانِ تعلیم اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ کے پی کا تعلیم پر خرچ ہونے والی رقم میں اضافہ کرنے سے ان تباہ کن رجحانات کو پلٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔

کے پی کے وزیر خزانہ مظفر سعید خان نے پاکستان فارورڈ بتایا کہ کے پی حکومت اپنی رقم کو سوچ سمجھ کرخرچ کرنا چاہتی ہے -- یہ تعلیمی بجٹ میں اپنی توجہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم پر مرکوز کر رہی ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تمام بچے اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کو پورا کر سکیں۔

پالیسی سازوں کے لئے تعلیم ایک ترجیح ہے

اسلام آباد کے ایک معلم اور انسٹیچیوٹ آف سوشل اور پالیسی سائنسز میں سینئر ریسرچ فیلو، احمد علی نے خیبر پختونخواہ حکومت کی پہل کی تعریف کی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اہم بات یہ ہے کہ بجٹ میں ... توجہ ترجیحی شعبوں پر مرکوز کی جاۓ، جیسے اساتذہ کی صلاحیت کو بڑھانا اور اسکولوں کی سہولیات میں اضافہ کرنا، متاثرہ بنیادی ڈھانچے کو بحال کرنا اور نئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر۔

انہوں نے کہا، "اسکولوں میں بچوں کی تعداد میں اضافہ صرف اسوقت ہو سکتا ہے جب کے پی میں ماہرانِ تعلیم بچوں کو اسکول میں پڑھائی جاری رکھنے کے لیے--- خاص کر مڈل اور ہائی اسکولوں میں -- اِن پیسوں کو سوچ سمجھ کر خرچ کریں۔"

انہوں نے کہا، "یہ حقیقت کہ تمام صوبوں نے اپنی تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستانی حکام کے لئے تعلیم ایک پالیسی ترجیح بن چکی ہے۔"

مستقبل کی روشن خیال نسل

ضلع نوشہرہ میں امن کے ایک سرگرم کارکن اور سباوون ایجوکیشن اکیڈمی کے بانی، عامر گمریانی نے کہا کہ کے پی کا تعلیمی اخراجات میں اضافہ کرنا تعریف کا مستحق ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ بتایا، "کام کرنے کے لئے زیادہ پیسہ دستیاب ہونا یقینی طور پر صورت حال کو بہتر بناۓ گا۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، دستیاب سہولیات کو بہتر بنانے اور مزید سہولیات فراہم کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔"

یہ سب کچھ کہنے کے بعد، "سب سے اہم بات انسانی وسائل کی تعمیر ہے۔"

انہوں نے کہا، "اس رقم کا ایک بڑا حصّہ اساتذہ، میں امن اور رواداری کی روح کو ذہن نشین کرانے کے لیے دینا چاییۓ، جو بچوں کو تعلیم دینے کے لئے بہترین اصلاح کار ہیں۔

نتیجہ اخذ کرتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ تعلیم پر زیادہ خرچ کرنے سے "ہمیں انتہا پسند ذہنیت کے برعکس مستقبل میں ایک روشن خیال نسل کے حصول کے مقصد میں مدد ملے گی۔"

عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے 'طاقتور ہتھیار'

پشاور میں سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن قمر نسیم نے کہا کہ بہتر طالب علم پیدا کرنے کا تعلق یقیناً تعلیم پر زیادہ خرچ کرنے سے ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پیسے سے اُن اسکولوں کی تعمیرنو میں مدد ملے گی جن کو دہشت گردوں تباہ کر دیا تھا اور اس طرح اسکول زیادہ بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے عسکریت پسندوں کے بچوں کو ورغلانے کے عزائم کو شکست ہو گی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ بتایا، "امن کو فروغ دینے کی ہماری قومی کوششوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے تعلیم سب سے زیادہ طاقتور ہتھیاروں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔"

پشاور اسکول کے استاد محمد اقبال نے کہا کہ تعلیم آزاد سوچ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور نئے خیالات کے دروازے کھولتی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکریت پسندی کی حمایت کا سب سے زیادہ امکان اُن نوجوانوں اور بچوں کی طرف سے ہے جو اسکول نہیں جاتے۔ اگر 28 فیصد بجٹ تعلیم اور مزید بچوں کو اسکول لانے پر خرچ کیا جاتا ہے، تو یہ اس علاقے میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے ایک بنیاد فراہم کرے گا۔"

انہوں نے کہا، 'تعلیم سے اعتماد پیدا ہوتا ہے، اعتماد سے امید اور امید سے امن پیدا ہوتا ہے۔'

اقبال نے کہا کہ "آزاد مفکرین اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کے عقیدوں کی اندھا دھند تقلید کرنے کی بجائے اپنے نتائج اخذ کرتے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ، ابلاغ کی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں اور ابلاغ اختلاف کو حل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے"۔

پشاور میں ایک اور سکول ٹیچر، رحیمہ بتول نے کہا، "معیاری تعلیم اسکول کے بچوں کو ایسے ہتھیار فراہم کرتی ہے جن سے وہ معاشرے کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ تعلیم غربت کو کم کرتی ہے، جو اکثر اوقات تنازعات اور انتہا پسندی کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ بتایا، "تعلیم یافتہ شہریوں کی طرف سے حکومت کی کرپشن کی حمایت کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں اور وہ حکومت کے احتساب کو مہمیز دے سکتے ہیں، جبکہ ناخواندہ لوگوں کے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی حمایت کرنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500