دہشتگردی

خیبرپختونخوا میں دہشت گرد حملوں میں کمی

از جاوید خان

کے پی پولیس افسران 5 جون کو ضلع نوشہرہ میں انسدادِ دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے ہوئے۔ [جاوید خان]

کے پی پولیس افسران 5 جون کو ضلع نوشہرہ میں انسدادِ دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے ہوئے۔ [جاوید خان]

پشاور - حکام کے مطابق، گزشتہ کئی برسوں میں یکساں عرصے کے مقابلے میں سنہ 2016 کی پہلی ششماہی کے دوران خیبرپختونخوا (کے پی) میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

پشاور میں مرکزی پولیس دفتر کی جانب سے جمع کردہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، سنہ 2016 کے پہلے چھ ماہ میں ننانوے دہشت گرد حملے رپورٹ ہوئے تھے۔

اس تعداد کا موازنہ سنہ 2015 میں اتنے ہی عرصے میں 134 اور سنہ 2014 کے اتنے ہی عرصے میں 292 کے ساتھ کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ کے پی حکام نے گزشتہ برسوں، خصوصاً سنہ 2008 اور 2009 میں اس سے بھی بدتر اعدادوشمار ریکارڈ کیے تھے۔

کے پی پولیس کے مطابق، خودکش بم دھماکوں کی کثرت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے سنہ 2016 کی پہلی ششماہی میں خودکش بم دھماکوں کے تین واقعات درج کیے، جو کہ سنہ 2015 کی پہلی ششماہی جتنے ہی ہیں۔ اس کے برعکس، انہوں نے سنہ 2013 میں اتنے ہی عرصے میں 13 ریکارڈ کیے تھے۔

سنہ 2013 سے 2016 تک، کے پی میں دیسی ساختہ بموں (آئی ای ڈی) سے حملوں کی تعداد میں 80 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی: سنہ 2016 میں اتنے ہی عرصے کے مقابلے میں، سنہ 2013 کی پہلی ششماہی میں 183۔

سنہ 2016 میں ابھی تک یا پورے سنہ 2015 میں گاڑی میں نصب دیسی ساختہ بموں سے کوئی حملہ نہیں ہوا۔

کریڈٹ مقامی اور قومی ہے

بہتری کا کچھ کریڈٹ کے پی پولیس کو جاتا ہے۔

کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس ناصر خان درانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگیوں، پولیس کی جانب سے تلاشیوں اور گرفتاریوں کے بہتر اقدامات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مربوط کوششوں نے پچھلے کچھ برسوں میں امن و امان کو بہت بہتر بنا دیا ہے۔"

انہوں نے دہشت گردوں کا تعاقب کرنے اور ان کے نیٹ ورکس کو توڑنے کے لیے پولیس، خصوصاً کے پی محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی کوششوں کو سراہا۔

درانی نے کہا، "جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے، پولیس نے گزشتہ چند برسوں کے دوران بہت سے اعلیٰ سطح کے مقدمات کو حل کیا ہے۔"

تاہم، قبائلی پٹی مین فوج کی دہشت گردی کے خلاف بے رحم لڑائی بھی کے پی کی مدد کر رہی ہے۔ فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا۔ یہ تاحال جاری ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر دفاعی مشیر، ظفر اللہ خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پولیس کی جانب سے کوششوں کے علاوہ، [دہشت گرد حملوں میں کمی] بنیادی طور پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے عسکریت پسندوں کے خلاف سخت مؤقف کی وجہ سے ہے، جس نے خیبرپختونخوا اور باقی ماندہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا ہے۔"

خان، جو کہ قومی محکمۂ انسدادِ دہشت گردی میں چیئرمین، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سربراہ، پولیس انسپکٹر جنرل اور فرنٹیئر کور کمانڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے کہا کہ لوگ بہت برسوں بعد سکھ کا سانس لے رہے ہیں جو کہ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مہربانی سے ہے۔

انہوں نے کہا، "قبائلی علاقہ جات میں آپریشن ضربِ عضب نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔"

کئی گرفتاریاں

سی ٹی ڈی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل صلاح الدین خان نے 13 جولائی کو ایک بریفنگ میں درانی کو بتایا کہ کے پی پولیس کے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے سنہ 2016 کی پہلی ششماہی میں 924 مشتبہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔

مشتبہ جنگجو کمانڈروں گل رؤف اور قاری رشید کی گرفتاریوں کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے، صلاح الدین خان نے کہا کہ حال ہی میں گرفتار ہونے والوں میں 97 دہشت گرد ایسے ہیں جن کی گرفتاری پر انعام رکھا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے لیے حکام نے بالترتیب، 2 ملین روپے (20،000 امریکی ڈالر) اور 1 ملین روپے (10،000 امریکی ڈالر) کا انعام رکھا تھا۔

خان نے کہا کہ کے پی پولیس نے حالیہ مہینوں میں مطلوب ترین مفروروں، عتیق الرحمان، اور حضرت علی کو گرفتار کیا، جن پر پشاور میں پولیس اور عام شہریوں پر حالیہ حملے کا الزام ہے۔

ایک بہتر ہوتا ہوا ماحول

شہری ایک ایسے علاقے میں بہت زیادہ احساسِ تحفظ دیکھ رہے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صفِ اول تھا۔

کرائم اینڈ ٹیررازم جنرلسٹ فورم آف کے پی کے صدر، طارق وحید نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہی وجہ ہے کہ آپ کو خریداری مراکز، پارکوں اور عوامی مقامات پر اب ہزاروں لوگ نظر آتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ کے پی میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں، ٹرک بم دھماکوں اور ماضی کے برسوں میں بڑے پیمانے پر اموات کا سبب بننے والے حملوں کی بجائے، زیادہ تر ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوروں سے نمٹ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا، "سنہ 2007 سے لے کر 2015 تک کسی بھی سال میں کے پی اور باقی ماندہ پاکستان میں صورتحال بہت بہتر ہے۔ ابھی بھی ہمیں امن و امان کو مکمل طور پر بحال کرنے کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔"

پشاور کے مضافات کے ایک مکین، نسیم خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایسا ہوتا تھا کہ آپ بازار یا کسی دوسری عوامی جگہ پر نہیں جا سکتے تھے۔ لیکن اب لوگ بہت پرسکون محسوس کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو تمام جتھوں کو توڑنے اور امن کو مکمل طور پر بحال کرنے کے لیے لازماً مزید کام کرنا چاہیئے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500