دہشتگردی

اے این پی کے رہنما کے قتل کو جمہوریت پر طالبان کے حملے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے

اشفاق یوسفزئی

اے این پی کے ارکان ضلع صوابی کے گاؤں یار حسین میں 18 جولائی کو محمد شعیب خان کی قبر پر دعا مانگ رہے ہیں۔ [بشکریہ اشفاق یوسفزئی]

اے این پی کے ارکان ضلع صوابی کے گاؤں یار حسین میں 18 جولائی کو محمد شعیب خان کی قبر پر دعا مانگ رہے ہیں۔ [بشکریہ اشفاق یوسفزئی]

صوابی -- اس ہفتے ضلع صوابی، خیبر پختونخواہ (کے پی) میں ایک سابق رکن اسمبلی کے قتل نے ایک بار پھر جمہوریت اور امن کے عمل کے خلاف طالبان کی مہم کو اجاگر کیا ہے۔

17 جولائی کو یار حسین گاؤں میں ایک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم قاتلوں نے فائرنگ کر کے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما، محمد شعیب خان کو قتل کر دیا۔

شعیب صوبائی اسمبلی کے ایک سابق رکن (ایم پی اے) تھے۔ اپنی موت کے وقت، وہ صوابی اصلاحی جرگہ (اصلاحات کی کمیٹی) کے صدر تھے۔ وہ سختی سے تشدد کی مخالفت کرتے تھے اور امن کی حمایت کی سرگرمیوں کے لئے مشہور تھے۔

شعیب کی پارٹی نے افسوس اور غم و غصہ کے ساتھ رد عمل کا اظہار کیا۔

اے این پی کے صدر اسفند یار ولی خان نے ایک بیان میں کہا،"عسکریت پسند جمہوریت کے حامیوں کو قتل کر کے لوگوں کو اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ لوگوں کی مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے، اور وہ عسکریت پسندی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہم نے طالبان کے خلاف جنگ میں [کسی بھی جماعت کے مقابلے میں] سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھایا ہے۔ ہماری پارٹی جمہوریت کی حمایت اور تشدد کی مذمت کرتی رہے گی۔"

اسفند یار نے کہا کہ اے این پی شعیب کی بہادری کی قدر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، "وہ 1997 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور اپنے 30 سالہ طویل سیاسی کیریئر کے دوران دہشت گردی کے خلاف ایک چٹان کی طرح کھڑے رہے۔"

یار حسین کے ایک رہائشی، محمد رفیق نے کہا کہ شعیب مقامی طور پر بہت مقبول تھے اور انہوں نے مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔

رفیق نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا، "انہوں نے امن پالیسی کے ذریعے بہت سے مسائل کو بڑے بحرانوں میں تبدیل ہونے والے روکا۔ شعیب خان ایک نڈر آدمی تھے اور عسکریت پسندوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے، لیکن ان پر اسوقت حملہ کیا گیا جب کسی تیاری کے بغیر وہ گاؤں والوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔

'لوگ دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں'

ضلع مردان کے ناظم، حمایت اللہ میار نے صوابی کے یار حسین گاؤں میں شعیب کے جنازے میں شرکت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند جمہوریت سے خوفزدہ ہیں اور جبر اور سفاکی کے ذریعے لوگوں پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "یہ کارروائیاں مکمل طور پر ناقابل قبول اور قابل مذمت ہیں۔ ہم شرپسندوں کو حکم دینے اجازت نہیں دے سکتے۔"

انہوں نے مزید کہا، "گزشتہ تین سالوں کے دوران طالبان نے موجودہ کے پی اسمبلی کے چار ارکان کو قتل کیا ہے، لیکن لوگوں نے ضمنی انتخابات میں بھی پہلے سے بھی زیادہ ووٹوں کے ساتھ [قتل ہونے والوں کچھ] نمائندوں کے بھائیوں کو منتخب کیا۔ وہ بہت صاف اور با آوازِ بلند یہ پیغام بھیج رہے ہیں کہ لوگ جمہوریت چاہتے ہیں اور تشدد کو مسترد کرتے ہیں۔"

ضلع صوابی کے پولیس افسر جاوید اقبال نے کہا کہ پولیس نے ابتدائی نتائج میں اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ شعیب کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا تھا۔

انہوں نے پاکستان کو فارورڈ بتایا، "تحقیقات جاری ہیں، لیکن اس کا طریقہ کار اُس سے ملتا جلتا ہے جس کو طالبان عسکریت پسندوں نے پچھلے حملوں میں استعمال تھا۔"

پشاور میں مقیم سیکورٹی کے تجزیہ کار اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکورٹی سیکرٹری، بریگیڈیئر(ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ طالبان "آسان اہداف" پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کیونکہ پاکستانی فوج کی طرف سے بلا توقف گولہ باری کی وجہ سے وہ بڑے پیمانے پر دہشت گرد حملے کرنے کے قابل نہیں رہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "عسکریت پسند، جن کو کبھی عوامی حمایت حاصل تھی، اب بالکل تنہا ہیں اور انہیں چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔"

شاہ نے کہا کہ طالبان غیر مسلح افراد کو نشانہ بنا کر اپنی کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

شاہ نے مزید کہا، "لوگوں اور خاص طور پر امن کمیٹیوں[ لشکروں] کے ارکان کو حفاظتی اقدامات لینے چاہئیں کیونکہ وہ خطرے میں ہیں۔"

امن کی خواہش

پشاور میں اے این پی کے سینئر رہنما اور ریلوے کے سابق وفاقی وزیر، غلام احمد بلور تین خودکش حملوں میں زندہ بچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے تمام ذرائع سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم کسی کو جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔"

طالبان نے 2012 میں پشاور میں ان کے چھوٹے بھائی، کے پی کے سینئر وزیر بشیر احمد بلورکو قتل کر دیا تھا۔

بلور نے کہا، "عسکریت پسندوں کے حملے غیر مؤثر رہے ہیں۔ امن کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لوگ اب دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔"

2008 کے بعد سے طالبان کے قاتلانہ حملوں اور بم دھماکوں سے اے این پی کے تقریباً 800 ارکان جاں بحق ہوۓ ہیں۔ انہوں 10 دن کے لیے شعیب کا سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔

پشاور میں مقیم اے این پی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے پاکستان فارورڈ سے کہا کہ شعیب کا قتل ایک بزدلانہ فعل تھا۔

انہوں نے کہا، "طالبان ہمیں ڈرا نہیں سکتے۔ کے پی اور فاٹا میں امن غالب آ گیا ہے۔"

افتخار، جن کے اکلوتے بیٹے کو 2010 میں پبی، کے پی میں عسکریت پسندوں نے ہلاک کر دیا تھا، خائف نہیں ہیں اور ہر فورم پر دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کو کچلنے کے لئے آرمی کو اپنا آپریشن جاری رکھنا چاہئے۔

اس قتل کو دہشت گردی کی کاروائی سمجھا جا رہا ہے

شعیب کا کسی کے ساتھ کوئی معلوم تنازعہ نہیں تھا، پولیس ان کے قتل کو دہشت گردی کی کاروائی سمجھتی ہے۔

یار حسین میں ایک پولیس اہلکار، اسلم خان، نے کہا، "ہم نےمشتبہ دہشت گردوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔"

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "دہشت گرد دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے لئے آسان اہداف پر حملہ کرتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ قتل 2015 میں صوابی میں طالبان کے پولیو کے قطرے پلانے والوں کے قتل سے ملتا جلتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Allah d obahe

جواب