معاشرہ

پاکستانی طلباء نے آرٹ اور ڈیزائن میں امن کی تاریخ بیان کی

ظاہر شاہ

پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد رسول جان (چھوٹے بازو والی قمیض پہنے ہوۓ) 2 جون کو یونیورسٹی کے آرٹ اور ڈیزائن ڈگری کی نمائش میں سٹالوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ [ظاہر شاہ]

پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد رسول جان (چھوٹے بازو والی قمیض پہنے ہوۓ) 2 جون کو یونیورسٹی کے آرٹ اور ڈیزائن ڈگری کی نمائش میں سٹالوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ [ظاہر شاہ]

پشاور -- فنکارانہ اور ثقافتی نمائشوں کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں میں خطے کی تاریخ کے بارے آگاہی پیدا کرنے کو انتہا پسند رجحانات کی روک تھام اور نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کا ایک اہم طریقہ کار کہا گیا ہے۔

مورخین کا کہنا ہے کہ پاکستانی ثقافت سالوں پُر امن بقائے باہمی، مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی مثال رہی ہے۔

وہ اس پیغام کو اگلی نسل تک پہنچانے پر زور دے رہے ہیں جو المیہ انداز میں دہائیوں کے تشدد کی خوگر ہو گئی ہے۔

یونیورسٹی کے حکام اور فنکاروں نے کہا کہ جون میں منعقد ہونے والی پشاور یونیورسٹی کی سالانہ آرٹ اور ڈیزائن ڈگری نمائش خطے کی پرامن اور رواداری کی تاریخ کو متعارف کرانے اور اس کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے ایک سنہری موقع تھا۔

یونیورسٹی کے آرٹ اور ڈیزائن کے شعبے میں تیرہ مقالات پیش کیے گئے۔ ان میں مختلف موضوعات پر ٹیکسٹائل اور مواصلات کے ڈیزائنرز کے کام کو شامل کیا گیا تھا۔

اس نمائش میں انکے کام کو دیکھنے کے بعد، پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد رسول جان نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی نوجوانوں اعلیٰ معیار کے حامل ہیں اور اگر موقع دیا جاۓ تو وہ آرٹ اور ڈیزائن میں بہترین مصنوعات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالب علم ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو مستقبل کی انکی پیشہ ورانہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تیار کیا جائے۔

یونیورسٹی کی فنون اور ادبیات کی فیکلٹی کے ڈین، منہاج الحسن نے کہا کہ ثقافتی تقریبات "ہمارے معاشرے کا حقیقی چہرہ اجاگر" کرنے کا ایک عظیم طریقہ ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا "اس طرح کی نمائشیں اپنی میراث نوجوان نسل کو منتقل کرنے کا ایک طریقہ ہیں۔ اس علاقے کی تقریباً تمام تہذیبوں کا، خواہ وہ بدھ مت ہوں، اسلامی یا پشتون، ایک متحمل اور پرامن چہرہ رہا ہے اور یہی وہ چیز ہے جسکو طالب علموں نے اپنے برش اور پینٹ کے ذریعے پیش کیا ہے۔"

رواداری کی قدیم تاریخ

انہوں نے مزید کہا، "ہماری تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ غیر مسلم افراد تک مقامی لوگوں کی حفاظت میں رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب کی تمیز کے بغیر انکا رویہ سب کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ عدم روادار اور انتہا پسند سوچ، جس نے چند مقامی نوجوانوں کو متاثر کیا ہے، باہر سے آئی ہے اور اس کو اس طرح کے اقدامات کے ذریعے رفع کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، "نوجوان نسل کی طرف سے اس طرح کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ امن سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنی تاریخ سے آگاہ ہیں جو امن اور انصاف پر مبنی ہے۔"

پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار، سید فضلِ ہادی نے کہا کہ اس نمائش میں پشاور کی تاریخی عمارتوں اور وادی سوات کے فن پاروں کو دکھایا گیا ہے۔ اسطرح یہ نمائش پاکستان کے قیمتی ثقافتی ورثے اور رواداری اور اعتدال پسندی کی طویل تاریخ کا ایک ثبوت ہے۔

پشاور میں مقیم ایک مصنف اور علاقے کی ثقافتی تاریخ کے ماہر، علی جان نے کہا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) اور خیبر پختونخواہ (کے پی)، خاص طور پر پشاور کا پرانا شہر، تاریخی اعتبار سے کثیر نسلی اور کثیر ثقافتی شہر تھے، جہاں سکھ، ہندو، عیسائی، مسلمان اور بہت سے دوسرے پرامن بقائے باہمی کیساتھ رہا کرتے تھے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ یہ مختلف گروپ ایک دوسرے کی ثقافتی رسومات اور تہواروں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان نسل اس ماضی کے بارے میں بہت کم جانتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی نسل بندوق کی ثقافت میں پلی بڑھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی نمائشیں نوجوانوں کو امن اور رواداری کو سکھانے کی ایک بہترین کاوش ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تقریبات نوجوان نسل کو ان کی پرامن تاریخ کے حقیقی چہرے کی یاد دلاتی رہیں گی۔

انہوں نے کہا، "کیونکہ [دہشت گردی کے خلاف] جنگ اور تنازعات نے صحت مند ثقافتی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے، خطے کی ثقافت اور آرٹ پر توجہ مرکوز کرنا، نہ صرف پشتون نوجوانوں میں آگاہی پیدا کرنے بلکہ دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ پشتون ہمیشہ پرامن اور سماجی ثقافتی طور پر روادار رہے ہیں، ایک بڑی پہل ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500