تعلیم

کے پی نے بڑے مدرسے کو بنیاد پرستی سے پاک کرنے کا منصوبہ متعارف کر دیا

اشفاق یوسفزئی

مئی میں ضلع نوشہرہ میں کے پی کے وزیرِ صحت شہرام ترکئی (سیاہ قمیص میں ملبوس) دارالعلوم حقانیہ مدرسہ میں ایک بچے کو پولیو کے خلاف ویکسین دے رہے ہیں۔ [اشفاق یوسفزئی]

مئی میں ضلع نوشہرہ میں کے پی کے وزیرِ صحت شہرام ترکئی (سیاہ قمیص میں ملبوس) دارالعلوم حقانیہ مدرسہ میں ایک بچے کو پولیو کے خلاف ویکسین دے رہے ہیں۔ [اشفاق یوسفزئی]

پشاور — خیبر پختونخواہ (کے پی) حکومت شدت پسندی کی انسداد کے لیے ایک اہم مدرسے کی اصلاحات کر رہی ہے۔

کے پی کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے 26 جون کو پشاور میں کہا، ”ہمیں مدرسوں کے طالبِ علموں کو بنیاد پرستی سے پاک کرنا ہو گا اور انہیں شدت پسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچانا ہو گا۔“

اگر حکام مناسب توجہ نہیں دیتے تو مدرسوں کے اندر جاری بنیاد پرستی سے متعلق خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

حکومتِ کے پی نے حال ہی میں اپنے 2016-2017 بجٹ میں ضلع نوشہرہ کے ایک بڑے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ (ڈی ایچ) میں نصابی اصلاحات کے لیے 293.3 ملین روپے (2.8 ملین امریکی ڈالر) مختص کیے ہیں۔

منصوبہ بچوں کو ریاضی، کمپیوٹر اور سائنس کی تعلیم دینا ہے۔

خان نے کہا، ”اگر ہم بچوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو وہ وحشی بن جائیں گے۔ ہمیں ان کو سرکاری سکولوں کی طرح معیاری تعلیم دینا ہے اور فارغ التحصیل طلبہ کو سرکاری ملازمتیں تلاش کرنے کے قابل بنانا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اصلاحات کے نفاذ کے لیے تعاون کر رہا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے مدرسہ ڈی ایچ کو جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایس) جماعت کے رہنما مولانا سمیع الحق چلا رہے ہیں۔

مبینہ طور پر متعدد افغان طالبان رہنما ڈی ایچ سے فارغ التحصیل ہوئے۔

خان نے کہا، ”ہمارا ارادہ ہے کہ بتدریج اصلاحات نافذ کی جائیں اور مدرسے کے طلبہ کو مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔“

ہر بچے کے لیے معیاری تعلیم

کے پی کے وزیرِ تعلیم محمّد عاطف خان نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”مولانا سمیع کے ساتھ الحاق سے، ہم ۔۔۔ جدید تعلیم فراہم کریں گے۔“

انہوں نے کہا کہ 2.3 ملین سے زائد پاکستانی بچے اس لیے جزوی طور پر مدرسوں میں پڑھتے ہیں کیوں کہ یہ مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔

محمّد خان نے کہا، ”ہم مذہبی سکولوں میں جانے والے بچوں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ وہ ہمارے معاشرے کا جزوِ لازم ہیں.“

مشاہدین اصلاحات کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔

پشاور کے سرحد کالج میں علومِ اسلامی کی تعلیم دینے والے ایک مقامی امام، محمود علی نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پی ٹی آئی نے مساوات پیدا کرنے کے لیے ایک بڑا اقدام کیا ہے۔ ہر پاکستانی بچہ معیاری تعلیم کا حق رکھتا ہے۔“

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے، دی نیوز انٹرنیشنل کے سینیئر صحافی عنصر عباسی نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”تمام قسم کے سکولوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کا نتیجہ کلی طور پر تعلیمی نظام کی ترقی ہے۔ ہمیں ایک جدید نصاب کی ضرورت ہے اور طالبِ علموں کو قومی ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔“

عباسی نے کہا کہ مدرسوں کے طالبِ علموں کو بے گانہ کر دینے سے صرف معاشرہ تقسیم ہو گا۔

کے پی کے وزیرِ اطلاعات مشتاق احمد غنی نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ مختص کرنے کا مقصد کے پی کی حکومتی پالیسی پر مدرسوں کے عملدرآمد کی نگرانی کا ایک نظام فراہم کرنا ہے۔

غنی نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم تمام بچوں کے لیے مساوی مواقع کے ساتھ ایک یکساں معاشرہ کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

تعلیم، صحت اور پائیدار امن

کے پی کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پرویز کمال خان نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اصلاحات کا مطلب بالآخر بہتر نگہداشت صحت ہے۔

انہوں نے کہا، ”اس سے صوبے میں بہتر ویکسینیشن ہو سکے گی۔ گزشتہ تین برسوں میں طالبان عسکریت پسندوں نے پولیو ویکسینیشن کرنے پر [پاکستان میں] 50 سے زائد ہیلتھ ورکرز کو قتل کیا۔“

پرویز نے کہا کہ ڈی ایچ میڈیکل ٹیموں کے لیے اپنے دروازے کھول کر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف باہمت طور پر کھڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا، ”مولانا سمیع نے یہ پیغام دینے کے لیے اپنے مدرسہ میں انسدادِ پولیو کی متعدد مہموں کا آغاز کیا، کہ پولیو کے خلاف بچوں کو ویکسین کرنا اسلام کی خلاف ورزی نہیں ہے“ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا سمیع کی جانب سے ویکسینیشن کی حمایت نے ٹی ٹی پی کے ایمیونائزیشن مخالف پراپیگنڈا کو مسدود کر دیا ہے۔

پرویز نے کہا کہ مولانا سمیع کے قیام نے پولیو ویکسینیشن کو مسترد کرنے والے پاکستانی گھرانوں کی تعداد 2013 میں 40,000 کے مقابلہ میں کم کر کے 2016 میں اب تک 1,500 تک پہنچانے میں مدد کی۔

مولانا سمیع نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتِ کے پی نے انہیں مدرسوں کی نصابی اصلاحات کے نفاذ کے لیے مرکزی شخصیت کے طور پر منتخب کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ”ہم نے حکومت کے ساتھ تعاون سے اصلاحات پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ غلط ہے کہ ہمارے کچھ طالبِ علم دہشتگردی میں ملوث تھے۔“

پشاور سے تعلق رکھنے والے، وفاق کے زیرِ انظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے سابق سیکریٹری سلامتی، برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے سنٹرل ایشیا آن لائن سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم بندوقوں سے دہشتگردی کو شکست دے سکتے ہیں، لیکن ایک پائیدار امن کے قیام کے لیے ہمیں مدرسوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہوگا۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500